پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات قائم ہونے چاہئیں، سینیٹر لنزی گراہم

امریکی سینیٹر لنزی گراہم پاکستانی وزیر خارجہ سے مصافحہ کر رہے ہیں

امریکی سنیٹر لنزی گراہم نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت تعلقات غلط ہیں۔ پاکستان کے ساتھ عبوری تعلقات کے بجائے سٹریٹجک تعلقات قائم کیے جانے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کو کہیں گے کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کریں تاکہ افغانستان میں جاری 17 سالہ جنگ کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

امریکی رپبلکن سینیٹر لنزی گراہم پاکستان کے دورہ پر ہیں اور انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت ملک کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔

سینیٹر لنزی گراہم کی سرکردگی میں امریکی وفد کے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے مذاکرات

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں ایک نیوز کانفرنس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی سینیٹر کا کہنا تھا کہ وہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کو سراہتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پاک فوج نے 18 ماہ میں وہ کام کردیا جس کی امریکہ کو 18 سال سے خواہش تھی۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کا پاکستان کیساتھ فری ٹریڈ کا معاہدہ گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے پاکستان موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان، افغان صدراشرف غنی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ملنے کی ضرورت ہے۔

لنزی گراہم نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مفاہمت کے بعد بھی ہمارا تعلق پاکستان کے ساتھ رہے گا۔ طالبان کا طاقت کے ذریعے افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنا کسی کے مفاد میں نہیں۔ ہم افغانستان کو نہیں کھو سکتے۔ ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان دوبارہ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں چلا جائے۔ ہم افغانستان سے دور نہیں جا سکتے، یہاں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

سینیٹر لنزی گراہم اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے میں میڈیا سے بات چیت کر رہے ہیں

اُنہوں نے کہا کہ پاک افغان سرحدپر باڑ لگانا ایک اچھا اقدام ہے۔ قبائلی علاقوں میں پاک آرمی کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ پاک فوج نے 18 ماہ میں وہ کام کر دیا جس کی امریکہ کو 18 سال سے خواہش تھی۔ پاکستان کے پاس سرحد محفوظ کرنے کی حکمت عملی موجود ہے۔ کاش ایسا افغانستان میں بھی ہوتا۔ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں بہتری آئی ہے۔

امریکی سینیٹر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت تعلقات غلط ہیں۔ ہم برطانیہ کو یہ نہیں کہتے کہ ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن جوابی طور پر آپ ہمیں کچھ دیں۔ یہی پارٹنر شپ ہم پاکستان کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں جس میں لین دین نہ ہو۔ امریکہ کی یہ غلطی ہے کہ پاکستان کے لیے پالیسی بار بار تبدیل کرتے رہے۔

لنزی گراہم نے پاک فوج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مستحکم پاکستان ہمارے بھی مفاد میں ہے۔ جنرل باجوہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں امریکہ کو پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کا اچھا موقع ہے۔ ہمیں عبوری تعلقات سے اسٹریٹجک تعلقات کی طرف جانا ہو گا۔ آئی ایم ایف کے قرض سے پاکستانی معیشت بہتر ہو گی۔

دوسری جانب امریکی سینٹ کام کے سربراہ جنرل جوزف ایل ووٹل کی قیادت میں اعلیٰ سطحی وفد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے راولپنڈی میں ملاقات کی۔

پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مشکلات کے باوجود علاقائی سلامتی کے لئے کام کیا اور پاکستان علاقائی امن و سلامتی کے لئے کوششیں جاری رکھے گا۔

اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان جیو اسٹریٹجک انوائرمنٹ، علاقائی سیکورٹی اور افغان مصالحتی امن عمل کے امور زیر غور آئے۔

ترجمان پاک فوج کے مطابق جنرل جوزف نے علاقائی امن میں پاک فوج کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ خطے میں امن و استحکام کے لئے پاک فوج کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان گذشتہ کچھ عرصہ سے سرمہری پائی جارہی تھی جس کی بڑی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹس تھیں جن میں انہوں نے پاکستان پر تنقید کی تھی۔ ان ٹوئیٹس کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے بھی سخت لہجہ اختیار کیا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان سردمہری موجود تھی۔ تاہم حالیہ رابطوں کے بعد امکان ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی جس سے افغان مفاہمتی عمل میں بھی مدد ملے گی۔