حکومت کا سعودی عرب میں پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی کی 'آپریشنل تفصیلات' دینے سے انکار

پاکستان آرمی کے جوان (فائل فوٹو)

سینیٹ چیئرمین رضا ربانی نے سعودی عرب میں مزید پاکستانی فوجی بھیجنے کے یک طرفہ حکومتی فیصلے پر وزیردفاع کی طرف سے تفصیلات فراہم کرنے سے انکار پر انہیں خبردار کیا کہ ان کے اور وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف توہینِ پارلیمان کی کاروائی کی جا سکتی ہے۔

وزیردفاع خرم دستگیر نے پیر کے روز سینیٹ کو بتایا کہ حالیہ فیصلہ وزیراعظم کی منظوری اور 2016ء میں پارلیمان کی قرارداد کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کیا گیا جب کہ ان تحفظات میں کوئی صداقت نہیں کہ پاکستانی فوج کسی بیرونی تنازع میں الجھ سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تقریباً ایک ہزار سے زائد فوجیوں کو عنقریب سعودی عرب بھیجا جائے گا جو کہ وہاں سعودی فوج کی تربیت اور مشاورت کے فرائض انجام دیں گے۔ وزیر دفاع کے بقول پاکستانی سکیورٹی فورسز سعودی عرب کی جغرافیائی حدود میں ہی تعینات ہوں گی۔

انھوں نے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان گہرے تعلقات، باہمی تعاون اور 1982ء میں اس ضمن میں کیے گئے ایک معاہدے کے تناظر میں اس فیصلے کا دفاع کیا۔

تاہم چیئرمین سینٹ رضاربانی کا کہنا تھا کہ ایوان کو ان باہمی تعلقات اور معاہدوں کا علم ہے اور وزیردفاع کی طرف سے پیش کی گئی وضاحت میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ اگر وزیردفاع کوئی وضاحت بند کمرہ اجلاس میں دینا چاہتے ہیں تو اس کا بھی انتظام کر دیا جائے گا لیکن فی الوقت دیے گئے جواب سے ایوان کی تشفی نہیں ہوئی۔

چیئرمین نے استفسار کیا کہ پاکستانی فوجی کس طرح کی تربیت دینے کے لیے جا رہے ہیں، کیا وہ سرحد کے پاس تعینات ہوں گے یا شہروں میں اور کن شرائط پر ان فوجیوں کو وہاں بھیجا جا رہا ہے۔

اس پر وزیردفاع کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج نے حالیہ برسوں میں انسداد دہشت گردی اور دشوار گزار پہاڑیوں میں لڑائی میں مہارت حاصل کی ہے جس کی وہ سعودی فوجیوں کو بھی تربیت فراہم کرے گی۔

حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ پاکستانی فوجیوں کو سعودی عرب میں یمن کی سرحد کے قریب شرورہ کے علاقے میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، کیا یہ بات درست ہے"

ایسے ہی مختلف سوالات پر وزیردفاع خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ وہ ایوان کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستانی فوجی سعودی عرب میں ہی تعینات اور وہاں کی فورسز کو تربیت و مشاورت فراہم کریں گے لیکن وہ فوجیوں کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان مخصوص علاقوں کے بارے میں نہیں بتا سکتے جہاں انھیں تعینات کیا جانا ہے۔

تین سال قبل سعودی عرب نے 41 اسلامی ممالک پر مشتمل ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تھا لیکن اس میں اس کے روایتی حریف ایران کے علاوہ، عراق اور شام شامل نہیں ہیں۔

پاکستان میں حزب مخالف اور غیر جانبدار حلقوں کی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ اس فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت سے خاص طور پر پڑوسی ملک ایران کے ساتھ اسلام آباد کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔

لیکن حکومت کا موقف ہے کہ وہ کسی بھی طور بیرونی تنازع میں فریق نہیں بنے گی۔