پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات پر توجہ مرکوز رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان جمعرات کو جاتی امرا میں ہونے والی ملاقات کے دوران ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دیے جانے والی پیش رفت، سینیٹ انتخابات اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت مخالف تحریک پر مشاورت ہوئی۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات ایسے موقع پر ہوئی ہے جب سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے محفوظ کر لی ہے۔ اسی روز الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دیا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب بھی اپوزیشن اکٹھی ہوتی ہے تو اِس کا کچھ نہ کچھ مطلب ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں رہنما آپس میں اتحاد کو مضبوط کرنے اور اختلافات ختم کرنے کی بات کرتے ہیں۔
سہیل وڑائچ کے بقول دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات سینیٹ انتخابات کے حوالے سے تھی اور اب سینیٹ الیکشن ایک اہم سیاسی ہدف بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ این اے 75 سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایک اچھا، انتظامی اور سیاسی فیصلہ ہے۔ جس سے نہ صرف الیکشن کمیشن کی سمت درست ہو گی بلکہ آئندہ سب کو تنبیہہ ہو جائے گی کہ جس الیکشن میں دھاندلی ہوئی اسے الیکشن کمیشن کالعدم بھی قرار دے سکتا ہے۔
SEE ALSO: حلقہ این اے 75 ڈسکہ کا ضمنی انتخاب کالعدم قرار، دوبارہ پولنگ کا حکمسپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس سے متعلق سوال پر سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے جو آئین میں لکھا ہے اُسی کو دوبارہ دہرایا ہے۔
ان کے بقول جس طرح سے حکومت اور صدرِ پاکستان نے اپنا بوجھ سپریم کورٹ تک منتقل منتقل کیا، اسی طرح سپریم کورٹ نے بھی بڑی خوبصورتی سے اس بوجھ کو دوبارہ پارلیمنٹ تک منتقل کر دیا ہے۔
مریم اور بلاول کے درمیان ملاقات کو سینیٹ انتخابات کے تناظر میں خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔
دونوں رہنماؤں نے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں کامیابی کے دعوے بھی کیے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کا مقصد ملک میں حقیقی جمہوریت بحال کرنا ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حیثیت میں کردار ادا کرے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکی ہے۔
بلاول کے بقول اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست پر یوسف رضا گیلانی کی جیت سے ثابت ہو گا کہ پارلیمنٹ بھی پی ڈی ایم کے ساتھ ہے اور حفیظ شیخ سے گیلانی کا مقابلہ ہمارا امتحان ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت عدم اعتماد کا کھیل نہیں کھیل رہے بلکہ سینیٹ انتخابات پر توجہ مرکوز کیے رکھے ہیں۔
SEE ALSO: یوسف رضا گیلانی کا بیان، کیا پاکستان میں اب اسٹیبلشمنٹ واقعی غیر جانب دار ہے؟بلاول کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم نے مل کر فیصلہ کیا ہے کہ ہم لانگ مارچ کریں گے اور مل ہی کر یہ فیصلہ کریں گے کہ اس حکومت کو کیسے ہٹانا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کہتی ہیں 'غیر منتخب' حکومت نے تین سال میں عوام کی زندگی تنگ کر دی ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو جمہوریت پسند لوگ چاہتے ہیں۔ آئین میں تبدیلی پارلیمان نے لانی ہے اور ان کی جماعت 'جعلی حکومت' کے ساتھ نہیں بیٹھے گی۔
پاکستان تحریک اِنصاف کی حکومت سے متعلق ایک سوال پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ آئینی مدت پوری کرنے کا فارمولہ منتخب حکومت پر لاگو ہوتا ہے۔
تجزیہ کار نسیم زہرہ نے مریم نواز اور بلاول بھٹو کے درمیان ہونے والی ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی یہ کوشش ہے کہ حکومت پر ایک طرف سیاسی دباؤ برقرار رکھا جائے اور دوسری طرف سینیٹ انتخابات میں کوئی سرپرائز سامنے لے آئیں۔
نسیم زہرہ کے مطابق سینیٹ انتخابات کے حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اعداد و شمار پر خفیہ رائے شماری ہو گی یا سب کے سامنے ہو گی۔
ان کے بقول "پی ڈی ایم نے اپنا راستہ کچھ تبدیل کیا ہے۔ وہ بائیکاٹ اور استعفوں سے ہٹ گئے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد اب موجودہ سسٹم کے ذریعے ہی سیاست کو متحرک کیے ہوئے ہے۔"
نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ "ایک طرف حمزہ شہباز کو ضمانت ملی تو دوسری طرف آصف علی زردای کے مقدمات بھی کراچی منتقل ہو گئے ہیں۔ تو کسی حد تک حزبِ اختلاف میں شامل سیاسی جماعتوں کو ریلیف ملنے کی بات تو ہوئی ہے۔"