میاں چنوں میں مبینہ توہینِ مذہب پر تشدد سے ایک شخص ہلاک، ہجوم میں شامل تقریباً 100 افراد گرفتار

فائل فوٹو

میاں چنوں میں مبینہ توہینِ مذہب پر ایک شخص کو تشدد کرکے ہلاک کرنے کے واقعے میں ملوث 100 سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن میں 21 مرکزی ملزمان بھی شامل ہیں۔

پولیس نے میاں چنوں میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص کی ہلاکت پر 33 نامزد اور 300 نامعلوم افراد کے خلاف قتل سمیت سنگین جرائم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

دوسری جانب پاکستان کے ایوان بالا نے میاں چنوں واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔کمیٹی اس واقعے کے اسباب کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لیے سفارشات مرتب کرے گی۔

اتوار کو ضلع خانیوال کے علاقے میاں چنوں میں مشتعل ہجوم نے توہینِ مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ایک شخص کو ہلاک کر دیا تھا۔ مقتول کے بڑے بھائی کے مطابق وہ ذہنی مریض تھا اور گاؤں واپس آنے سے پہلے تک کراچی میں اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ رہ رہا تھا۔

سینیٹ کے اجلاس میں میاں چنوں واقعے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیالکوٹ سانحہ کے بعد اس واقعے نے ایک بار پھر قوم کو جھنجھوڑا دیا ہے۔ قوم کو ملک میں برداشت کے کلچر کے فروغ کے لیے سامنے آنا ہوگا۔ ہجوم کے تشدد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں بنانی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میاں چنوں میں ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص کے قتل کا واقعہ قابلِ مذمت ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا حصہ بنتا جا رہا ہے کہ لوگ اپنی نجی عدالت لگا لیتے ہیں۔ ہم اس کی پاکستان میں اجازت نہیں دے سکتے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کو قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کو بھیجا جائے۔

قائد ایوان سینیٹر شہزاد وسیم نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم میاں چنوں واقعے کے خلاف متحد ہے اور صرف چند لوگ ہیں جو انتہا پسندی کی سوچ رکھے ہوئے ہیں۔

SEE ALSO: توہینِ مذہب کا الزام؛ 75 برس میں 1415 مقدمات، 89 افراد ماورائے عدالت قتل

سینیٹر پیر صابر شاہ نے کہا کہ جتھوں کے ہاتھوں افراد کا قتل کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور یہ دہشت گردی کی نئی شکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے سری لنکن شہری کو ہجوم نے قتل کیا اور اب میاں چنوں کے واقعے سے بقول ان کے اسلام کو ایسے پیش کیا گیا جیسے اسلام دہشت کا نام ہے اور اسلام کو ماننے والے وحشی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سال دسمبر میں سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے مبینہ الزام پر ایک سری لنکن شہری کو تشدد کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ دہشت گردی کی اس نئی شکل پر ایک نیا نیشنل ایکشن پلان بنانا ہوگا۔

بحث کے اختتام پر چیئرمین سینیٹ نے ایوان کی انسانی حقوق کمیٹی کو میاں چنوں واقعہ کے اسباب اور اس قسم کے واقعات کے تدارک کے لیے سفارشات مرتب کرنے کی رولنگ جاری کی۔

واضح رہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی فرد یا گروہ کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش قطعاً برداشت نہیں کی جائے گی اور پُرتشدد ہجوم کو سختی سے کچل دیا جائے گا۔