امریکی سینیٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد کردہ ڈاکیومینٹری اور فلم میکر مائیکل پیک کو یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (یو ایس اے جی ایم) کا سربراہ تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
جمعرات کو سینیٹ نے 38 کے مقابلے میں 58 ووٹوں سے مائیکل پیک کے نام کی منظوری دی جنہیں تین سال کے لیے ایجنسی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (یو ایس اے جی ایم) امریکی حکومت کی فنڈنگ سے چلنے والا براڈکاسٹنگ ادارہ ہے جس کے تحت وائس آف امریکہ، ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی اور ریڈیو فری ایشیا جیسے ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔
مائیکل پیک کی تقرری دو سال سے زیرِ غور تھی لیکن حزب اختلاف کی جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی نے اُن کے کاروبار کے حوالے سے بعض خدشات کا اظہار کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے مائیکل پیک کے نام کی منظوری پر امریکی سینیٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اُمید کرتے ہیں کہ وہ پیشہ وارانہ انداز میں ادارے کو چلائیں گے۔
مائیکل پیک نے اپنی پروڈکشن کمپنی 'مینی فولڈ' کے تحت کئی ڈاکیومینٹریز بنائی تھیں جو امریکہ کی پبلک براڈ کاسٹ سروس (پی بی ایس) پر نشر ہوتی رہی ہیں۔
مائیکل پیک نے صدر ٹرمپ کے سابق مشیر اسٹیفن بینن کے ساتھ مل کر فلم سازی کے مختلف پراجیکٹس پر بھی کام کیا تھا۔
پیک اس سے قبل بھی 'یو ایس اے جی ایم' کے ایک پراجیکٹ ورلڈ نیٹ کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔
مائیکل پیک کی تقرری میں تاخیر پر گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں ڈیمو کریٹک اراکین مائیکل پیک سمیت دیگر اہم عہدوں پر اُن کی نامزدگیوں میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
SEE ALSO: کرونا وائرس کوریج: وائٹ ہاؤس کی تنقید پر وائس آف امریکہ کا سخت ردعملصدر ٹرمپ نے کرونا وائرس سے متعلق چین کے حوالے سے وائس آف امریکہ کی کوریج پر تنقید بھی کی تھی۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وائس آف امریکہ امریکیوں کی آواز بننے کے بجائے اس کے مخالفین کی آواز بن رہا ہے۔ لہذٰا وہ ایسے شخص کو اس کا سربراہ بنانا چاہتے ہیں جو صحیح معنوں میں وائس آف امریکہ کو چلا سکے۔
لیکن وائس آف امریکہ کی ڈائریکٹر اماندا بینٹ نے صدر ٹرمپ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ادارے نے کرونا وائرس کی کوریج کے دوران صحافتی اُصولوں پر عمل کرتے ہوئے تصویر کا ہر رخ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اماندا بینٹ کی جانب سے جاری کیے گئے تفصیلی بیان میں کہا گیا تھا کہ عوام کے پیسوں اور حکومت کے زیرِ اثر چلنے والے صحافتی اداروں کے درمیان فرق ہے۔ وی او اے کے چارٹر کے تحت "ہم کہانی کا ہر رُخ پیش کرنے کے پابند ہیں۔"
وی او اے کی ڈائریکٹر نے کہا تھا کہ دنیا کے ساتھ ملکوں اور 47 زبانوں میں پیش کی جانے والی ہماری کوریج پر صارفین کا اعتماد اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہماری خبروں کو معتبر سمجھتے ہیں۔