سنہ 1990 میں مجھے لیڈی ڈیانا سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ میرا انتخاب یورکشائرکے 5000 اسپیشل بچوں میں سے کیا گیا تھا، جہاں مجھےلندن کے ایک مقامی ہوٹل میں ’چائلڈ آف دی ائیر‘ کا ایواڈ دیا گیا
ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اعجاز حسین کبھی چل نہیں سکتا ۔ تاہم، اعجاز حسین نے ڈاکٹروں کی اس پیشن گوئی کو نہ صرف غلط ثابت کیا، بلکہ وہ لوگوں کے لیے ہمت، لگن اور بلند ارادے کی ایک ایسی مثال بن گئے ہیں۔
تینتیس سالہ اعجاز حسین پیدائشی طور پر دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں سےمحروم ہیں۔ اس کے باوجود، اُنھوں نے ڈرائیونگ ٹیسٹ آٹھ معمولی غلطیوں کے ساتھ پہلی ہی دفعہ میں پاس کر لیا ۔اپنی اس کامیابی پر وہ انتہائی خوش نظر آتے ہیں۔ اُن کے لیے زندگی کا مفہوم بدل چکا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کے ایک ایسا ڈرائیونگ اسکول شروع کریں جہاں اسپیشل افراد کو ڈرائیونگ مفت سکھائی جائے۔
اعجاز حسین برطانیہ کے شہر لیڈز میں پیدا ہوئےاور تین بچوں کے والد ہیں ۔ وہ سینٹ جیمز ہسپتال کے ایڈ منسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں ۔وہیں انھوں نے مصنوعی ٹانگ بھی لگوا لی ہے ۔
’وی او اے‘ سے بات کرتے ہوئے اعجاز حسین نے اپنے زندگی کی کچھ تلخ ا ور شیریں یادوں کا ذکر کیا۔
’میرا بچپن عام بچوں جیسا نہیں تھا۔ تین بہنیں اور ایک بھائی۔ میری زندگی ان سب کی محتاج تھی۔ میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا شکر گزار ہوں جنھوں نے ہمیشہ میرا خیال رکھا۔ وہ ہر کھیل میں مجھے اپنے ساتھ رکھتے مگر انھیں ویڈیو گیمز اور گھر سے باہر فٹبال کھیلتے دیکھ کر میں اپنے والدین سے شکوہ کرتا کہ 'میں ایسا کیوں ہوں ۔'
ایسےمیں، میرے والد مجھے سمجھاتے کہ تمہیں زندگی میں آگے بڑھنا ہے اور اس سوچ کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا۔
اُنھوں نے کہا میں اسپیشل اسکول جانے کے ساتھ ساتھ فزیو تھراپسٹ کےپاس بھی جایا کرتا تھا۔ایک دن جب میں کوشش کر کے کھڑے ہونے میں کامیاب ہو گیا ، تو گھر میں سبھی بہت خوش تھے۔
’میں نے سمجھ لیا کہ اگر میں اپنی معذوری کو اپنی مجبوری بنا لوں گا، تو کچھ ہی دن میں سب مجھ سے بے زار ہو جائیں گے۔ لہذا، میں نے اپنی زندگی میں خوش رہنا سیکھ لیا۔ لوگوں سے ہنس ہنس کر بات کرنا۔اُنھیں لطیفے سنانا۔ بس، مجھےسبھی کے ساتھ مزا آنے لگا اور لوگ بھی مجھ سے بور نہیں ہوتے‘۔
سنہ 1990 میں مجھے لیڈی ڈیانا سے ملاقات کا موقع بھی ملا ۔میرا انتخاب یورکشائرکے 5000 اسپیشل بچوں میں سے کیا گیا تھا۔ جہاں مجھےلندن کے ایک مقامی ہوٹل میں ’چائلڈ آف دی ائیر‘ کا ایواڈ دیا گیا۔
انھوں نے اپنی شادی کا قصہ سناتے ہوئے کہا کہ، ’میرے والد نے میری شادی پاکستان میں طے کر دی۔ مجھے یہ سوچ کر ہی عجیب لگتا تھا کہ کوئی کیوں ساری زندگی کے لیے میری ذمہ داری اٹھانا چاہے گا‘۔
’میں تو اپنی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لیے بھی اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا محتاج ہوں۔ ایسے میں، شادی کی ذمہ داری کے لیے میں تیار نہیں تھا۔ مگر، میرے تمام خدشات میری شریک ِحیات نے غلط ثابت کر دیے۔ ہماری شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں اور ہم ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ۔ جبکہ، اس کے ٖفرائض میں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ میرےہر کام کی ذمہ داری بھی شامل ہے ‘۔
مسز حسین نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ،’میں اعجاز سے اپنی شادی کو اپنا مقدر مانتی ہوں۔ اور، اِس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ اگر میرا نصیب اعجاز کے ساتھ ہی جڑا تھا ، تو کسی ایکسیڈنٹ سے بھی ایسا ہو سکتا تھا‘ ۔
اعجاز نے بتایا کہ ان کے ڈرائیونگ سیکھنے کی کہانی پرانی ہے۔ جب وہ 18 سال کی عمر میں ڈرائیونگ سیکھنا چاہتے تھے، تب ان کویہ ناممکن سا لگتا تھا ۔
شادی کے بعد اپنی بیوی کی ہمت بڑھانےسے اُنھوں نے ایک بار پھرخود کو ڈرائیونگ سیکھنے کے لیے تیار کیا ۔ اس میں ان کی سچی لگن اور پختہ ارادے کا ہاتھ تھا کہ اُنھوں نےنا ممکن کو ممکن بنا دیا۔اُن کا کہنا تھا کہ اسپیشل افراد کے لیے انسٹرکٹر ڈھونڈنا بھی مشکل کا م ہے مگر وہ خوش قسمت تھےکہ اُنھیں' لی' جیسا انسٹرکٹر ملا جِس کی حوصلہ افزائی سے اُن کے لیے گاڑی چلانا بہت آسان ہو گیا۔
وہ کہتے ہیں کے ڈرائیونگ سیکھنے کی خوشی اس لیے بہت زیادہ ہے کیوں کہ اب وہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ ویک اینڈ پر گھومنے جاتے ہیں۔ان کی زندگی پہلے کی بہ نسبت بہت سہل ہو گئی ہے ۔اس سلسلے میں اُنھوں نے اپنے انسٹرکٹر لی اور گھر والوں کا شکریہ ادا کیا جن کی سپورٹ سے آج وہ اپنی زندگی میں خوش ہیں۔انھوں نے اپنی گاڑی میں ایک ہینڈ فری بٹن آپریٹڈ سسٹم ڈالنے کے لیے 3500 پاؤنڈ کا اضافی خرچہ بھی کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہےکہ وہ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں اسپیشل افراد کے لیے صرف دن ہی نہ منائے جائیں، بلکہ اُن کی سہولت کے لیےبھی سوچنا سب لوگوں کا فرض بنتا ہے۔ شہری انتظامیہ کی جانب سےپارکنگ لاٹ میں زیادہ جگہ مختص ہونی چاہیئے،بہت سی جگہوں پر جانا اس لیے ناممکن ہوتا ہےکیوں کہ وہاں’ ریمپ‘ نہیں ہوتے ۔ا ِس کے علاوہ، اُنھوں نے لوگوں کے رویہ کو بدلنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ لوگ اسپیشل افراد کو شاپنگ کرتے دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں ،جبکہ اُنھیں لوگوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔
انھوں نے کہا اکثر لوگ انھیں بہت ہمدردی سے دیکھتے ہیں جس کا انھیں برا نہیں لگتا، مگر جب کوئی خاص اشارہ کر کے ان سے تعلق کوئی چبھتی بات کرتا ہے تو انھیں یہ بات اچھی نہیں لگتی۔
اُن کے بقول، ’میں ایسے لوگوں کو خصوصا ًہماری ایشین کمیونٹی کے لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ایسےاسپیشل بچوں کے اندرخود اعتمادی کا جذبہ پیدا کریں اور اُنھیں بجائے ہمدردی کے اپنی محبت دیں تو یہی بچے کبھی بھی خود کو ناکارہ نہیں سمجھیں گے اور اپنی زندگی اعتماد سےگزارنے کے قابل ہو جائیں گے‘ ۔
اِس خیال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہ چاہتے ہیں کہ اسپیشل افراد ڈرائیونگ سیکھیں اور اس مقصد کے لیے وہ ایک ڈرائیونگ اسکول کھولنے کے متمنی ہیں۔
تینتیس سالہ اعجاز حسین پیدائشی طور پر دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں سےمحروم ہیں۔ اس کے باوجود، اُنھوں نے ڈرائیونگ ٹیسٹ آٹھ معمولی غلطیوں کے ساتھ پہلی ہی دفعہ میں پاس کر لیا ۔اپنی اس کامیابی پر وہ انتہائی خوش نظر آتے ہیں۔ اُن کے لیے زندگی کا مفہوم بدل چکا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کے ایک ایسا ڈرائیونگ اسکول شروع کریں جہاں اسپیشل افراد کو ڈرائیونگ مفت سکھائی جائے۔
اعجاز حسین برطانیہ کے شہر لیڈز میں پیدا ہوئےاور تین بچوں کے والد ہیں ۔ وہ سینٹ جیمز ہسپتال کے ایڈ منسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں ۔وہیں انھوں نے مصنوعی ٹانگ بھی لگوا لی ہے ۔
’وی او اے‘ سے بات کرتے ہوئے اعجاز حسین نے اپنے زندگی کی کچھ تلخ ا ور شیریں یادوں کا ذکر کیا۔
’میرا بچپن عام بچوں جیسا نہیں تھا۔ تین بہنیں اور ایک بھائی۔ میری زندگی ان سب کی محتاج تھی۔ میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا شکر گزار ہوں جنھوں نے ہمیشہ میرا خیال رکھا۔ وہ ہر کھیل میں مجھے اپنے ساتھ رکھتے مگر انھیں ویڈیو گیمز اور گھر سے باہر فٹبال کھیلتے دیکھ کر میں اپنے والدین سے شکوہ کرتا کہ 'میں ایسا کیوں ہوں ۔'
ایسےمیں، میرے والد مجھے سمجھاتے کہ تمہیں زندگی میں آگے بڑھنا ہے اور اس سوچ کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا۔
اُنھوں نے کہا میں اسپیشل اسکول جانے کے ساتھ ساتھ فزیو تھراپسٹ کےپاس بھی جایا کرتا تھا۔ایک دن جب میں کوشش کر کے کھڑے ہونے میں کامیاب ہو گیا ، تو گھر میں سبھی بہت خوش تھے۔
’میں نے سمجھ لیا کہ اگر میں اپنی معذوری کو اپنی مجبوری بنا لوں گا، تو کچھ ہی دن میں سب مجھ سے بے زار ہو جائیں گے۔ لہذا، میں نے اپنی زندگی میں خوش رہنا سیکھ لیا۔ لوگوں سے ہنس ہنس کر بات کرنا۔اُنھیں لطیفے سنانا۔ بس، مجھےسبھی کے ساتھ مزا آنے لگا اور لوگ بھی مجھ سے بور نہیں ہوتے‘۔
سنہ 1990 میں مجھے لیڈی ڈیانا سے ملاقات کا موقع بھی ملا ۔میرا انتخاب یورکشائرکے 5000 اسپیشل بچوں میں سے کیا گیا تھا۔ جہاں مجھےلندن کے ایک مقامی ہوٹل میں ’چائلڈ آف دی ائیر‘ کا ایواڈ دیا گیا۔
انھوں نے اپنی شادی کا قصہ سناتے ہوئے کہا کہ، ’میرے والد نے میری شادی پاکستان میں طے کر دی۔ مجھے یہ سوچ کر ہی عجیب لگتا تھا کہ کوئی کیوں ساری زندگی کے لیے میری ذمہ داری اٹھانا چاہے گا‘۔
’میں تو اپنی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لیے بھی اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا محتاج ہوں۔ ایسے میں، شادی کی ذمہ داری کے لیے میں تیار نہیں تھا۔ مگر، میرے تمام خدشات میری شریک ِحیات نے غلط ثابت کر دیے۔ ہماری شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں اور ہم ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ۔ جبکہ، اس کے ٖفرائض میں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ میرےہر کام کی ذمہ داری بھی شامل ہے ‘۔
مسز حسین نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ،’میں اعجاز سے اپنی شادی کو اپنا مقدر مانتی ہوں۔ اور، اِس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ اگر میرا نصیب اعجاز کے ساتھ ہی جڑا تھا ، تو کسی ایکسیڈنٹ سے بھی ایسا ہو سکتا تھا‘ ۔
اعجاز نے بتایا کہ ان کے ڈرائیونگ سیکھنے کی کہانی پرانی ہے۔ جب وہ 18 سال کی عمر میں ڈرائیونگ سیکھنا چاہتے تھے، تب ان کویہ ناممکن سا لگتا تھا ۔
شادی کے بعد اپنی بیوی کی ہمت بڑھانےسے اُنھوں نے ایک بار پھرخود کو ڈرائیونگ سیکھنے کے لیے تیار کیا ۔ اس میں ان کی سچی لگن اور پختہ ارادے کا ہاتھ تھا کہ اُنھوں نےنا ممکن کو ممکن بنا دیا۔اُن کا کہنا تھا کہ اسپیشل افراد کے لیے انسٹرکٹر ڈھونڈنا بھی مشکل کا م ہے مگر وہ خوش قسمت تھےکہ اُنھیں' لی' جیسا انسٹرکٹر ملا جِس کی حوصلہ افزائی سے اُن کے لیے گاڑی چلانا بہت آسان ہو گیا۔
وہ کہتے ہیں کے ڈرائیونگ سیکھنے کی خوشی اس لیے بہت زیادہ ہے کیوں کہ اب وہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ ویک اینڈ پر گھومنے جاتے ہیں۔ان کی زندگی پہلے کی بہ نسبت بہت سہل ہو گئی ہے ۔اس سلسلے میں اُنھوں نے اپنے انسٹرکٹر لی اور گھر والوں کا شکریہ ادا کیا جن کی سپورٹ سے آج وہ اپنی زندگی میں خوش ہیں۔انھوں نے اپنی گاڑی میں ایک ہینڈ فری بٹن آپریٹڈ سسٹم ڈالنے کے لیے 3500 پاؤنڈ کا اضافی خرچہ بھی کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہےکہ وہ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں اسپیشل افراد کے لیے صرف دن ہی نہ منائے جائیں، بلکہ اُن کی سہولت کے لیےبھی سوچنا سب لوگوں کا فرض بنتا ہے۔ شہری انتظامیہ کی جانب سےپارکنگ لاٹ میں زیادہ جگہ مختص ہونی چاہیئے،بہت سی جگہوں پر جانا اس لیے ناممکن ہوتا ہےکیوں کہ وہاں’ ریمپ‘ نہیں ہوتے ۔ا ِس کے علاوہ، اُنھوں نے لوگوں کے رویہ کو بدلنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ لوگ اسپیشل افراد کو شاپنگ کرتے دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں ،جبکہ اُنھیں لوگوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔
انھوں نے کہا اکثر لوگ انھیں بہت ہمدردی سے دیکھتے ہیں جس کا انھیں برا نہیں لگتا، مگر جب کوئی خاص اشارہ کر کے ان سے تعلق کوئی چبھتی بات کرتا ہے تو انھیں یہ بات اچھی نہیں لگتی۔
اُن کے بقول، ’میں ایسے لوگوں کو خصوصا ًہماری ایشین کمیونٹی کے لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ایسےاسپیشل بچوں کے اندرخود اعتمادی کا جذبہ پیدا کریں اور اُنھیں بجائے ہمدردی کے اپنی محبت دیں تو یہی بچے کبھی بھی خود کو ناکارہ نہیں سمجھیں گے اور اپنی زندگی اعتماد سےگزارنے کے قابل ہو جائیں گے‘ ۔
اِس خیال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہ چاہتے ہیں کہ اسپیشل افراد ڈرائیونگ سیکھیں اور اس مقصد کے لیے وہ ایک ڈرائیونگ اسکول کھولنے کے متمنی ہیں۔