شنگھائی تعاون تنظیم، عالمی استحکام کی ایک اہم قوت ہے: پوٹن

قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر روس کے صدر ولادی میر پوٹن چین کے صدر شی جن پنگ سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ 3 جولائی 2024

  • شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن 2001 میں قائم ہوئی تھی جس میں ابتدائی طور پر روس، چین اور وسطی ایشائی ملک شامل تھے۔
  • بعد ازاں اس میں بھارت، پاکستان اور ایران کو بھی شامل کر لیا گیا اور اس سال بیلا روس کو بھی اس کی رکنیت مل گئی ہے۔
  • اس گروپ کا بنیادی مقصد منشیات کی اسمگلنگ اور ملک کو درپش عدم استحکام کے خطرے کے مقابلے کے لیے مشترکہ نقطہ نظر پیدا کرنا ہے۔
  • وزیراعظم شہباز شریف اس کانفرنس میں شریک ہیں اور انہوں نے سائیڈ لائنز پر کئی ملکوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں ہیں۔

ویب ڈیسک۔۔۔۔۔قازقستان میں بدھ کے روز علاقائی تنظیم، یوریشین سیکیورٹی کلب کے سربراہی اجلاس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن اور چین کے صدر شی جن پنگ نے اس علاقائی گروپ کو عالمی استحکام کے لیے ایک اہم قوت کے طور پر سراہا۔

ماسکو اور بیجنگ اس گروپ کو مغربی اثر و رسوخ کے مقابلے میں ایک ہتھیار کے طور پر دیکھتے ہیں۔

شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن ( ایس سی او) نامی اس تنظم کا قیام 2001 میں ہوا تھا جس میں روس، چین اور وسطی ایشیائی ممالک شامل تھے۔ بعد ازاں پوٹن اور شی نے بھارت، ایران اور پاکستان کو اس گروپ میں شامل کر کے اسے وسعت دے دی۔

صدر پوٹن کا کہنا تھا کہ اس گروپ کو کثیر قطبی عالمی نظام میں انصاف کے کلیدی ستونوں میں سے ایک کلیدی ستوں کے طور پر قائم کیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ماسکو اور بیجنگ کے درمیان دو طرفہ تعلقات تاریخی اعتبار سے بہترین سطح پر ہیں۔

آستانہ میں روس اور چین کے صدور کی اپنے وفد کے ہمراہ ملاقات کا ایک منظر۔ 3 جولائی 2024

پوٹن کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا تعاون کسی کے خلاف نہیں ہے۔ ہم کوئی بلاک یا اتحاد نہیں بنا رہے۔ ہم صرف اپنے عوام کے مفاد کے لیے کام کر رہے ہیں۔

چین کے صدر شی نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ روس اور چین کو بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورت حال سے مقابلے کے لیے آنے والی نسلوں تک دوستی کی اصل خواہش کو ہمیشہ برقرار رکھنا چاہیے۔

SEE ALSO: روس اور چین کے تعلقات کسی کے خلاف نہیں ہیں: صدر پوٹن

پوٹن کو اپنا دیرینہ دوست قرار دیتے ہوئے شی نے دو طرفہ تعلقات میں مزید پیش رفت کے لیے ان منصوبوں اور اقدامات کا ذکر کیا جو دونوں ملکوں نے کیے ہیں۔

کریملن نے کہا ہے کہ پوٹن نے قازقستان کے صدر مقام آستانہ میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے سربراہی اجلاس کے موقع پر الگ سے کئی دو طرفہ ملاقاتیں کیں ہیں۔

دو روزہ سربراہی کانفرنس جمعرات کو ختم ہو رہی ہے۔

ایس سی او کے مقاصد میں سلامتی کو لاحق بیرونی خطرات، مثال کے طور پر منشیات کی اسمگلنگ اور ملک کو درپیش کسی بھی نوعیت کے عدم استحکام کے مقابلے کے لیے مشترکہ توجہ کو فروغ دینا ہے۔

چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے قبل روسی صدر پوٹن نے، ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان، آذربائیجان کے صدر الہام علییوف، منگولیا کے صدر اوخناگین خرلسک اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سے بھی ملاقاتیں کیں۔

پاکستان کے پرائم منسٹر آفس نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس میں لائیڈ لائنز میں ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردگان اور آذربائجان کے صدر الہام علییوف کے ہمراہ سہ فریقی اجلاس میں شرکت کی اور معیشت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں قریبی تعاون پر زور دیا۔ انہوں نے ازبکستان کے صدر سے بھی ملاقات کی۔

آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی سائیڈ لائن پر وزیر اعظم شہباز شریف اپنے وفد کے ہمراہ ازبکستان کے صدر اور ان کے وفد سے ملاقات کر رہے ہیں۔ 3 جولائی 2024

بھارت نے کہا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی متوقع طور پر اس ماہ کے آخر میں ماسکو کا دورہ کرنے والے ہیں اور آستانہ سربراہی اجلاس میں وہ نہیں بلکہ وزیرخارجہ سبرامنیم جے شنکر شرکت کریں گے۔

صدر پوٹن نے فروری 2022 میں یوکرین پر حملہ کرنے سے چند روز پہلے چین کا دورہ کیا تھا اور اس موقع پر دونوں ملکوں نے کہا تھا کہ ان کی شراکت داری کی کوئی حد نہیں ہے۔

پوٹن اور شی کا خیال ہے کہ سرد جنگ کے بعد امریکی غلبے کا دور اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ جب کہ امریکہ چین کو اپنا سب سے بڑا معاشی حریف اور روس کو قوم اور ملک کے لیے اپنے سب سے بڑے خطرے کے طور پر پیش کرتا ہے۔

کریملن نے کہا ہے کہ بیلاروس پہلی بار شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے مکمل رکن کے طور پر آستانہ سربراہی اجلاس میں شرکت کرے گا۔

آستانہ کے اجتماع میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی بھی شرکت متوقع ہے۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)