امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ افغانستان سے انخلاء کا فیصلہ انتہائی مشکل تھا مگر درست تھا جس کے ذریعے امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہوا۔
بلنکن نے یہ بات امریکی محکمہ خارجہ میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا، افغانستان سے واپسی کے فیصلے نے امریکہ کو اس قابل کیا کہ وہ اپنے وقت کے دیگر بہت سے چیلنجز سے مؤثر طور پر نمٹ سکے جن کا تعلق عالمی طاقت بننے کی دوڑ اور کثیر القومی مسائل سے ہے اور جو امریکی عوام اور دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہے ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا اگرچہ امریکہ افغان عوام کی مدد کے لیے مسلسل کام کر رہا ہے، تاہم افغانستان کے سلسلے میں ہمارے کچھ مستقل عزائم ہیں جو تبدیل نہیں ہوئے۔
بلنکن نے کہا،"ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ جو بھی امریکی شہری افغانستان میں باقی رہ گئے ہیں ان کے لیے اور جو وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں ان سب کے لیے جو بہتر ہو کرسکیں۔"
انہوں نے کہا،"جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ہم انخلاء کے دوران ان تمام امریکی شہریوں کو واپس لے آئے جنہوں نے کہا کہ وہ افغانستان سے جانا چاہتے ہیں اور یہ سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہا اور آج کے دن تک جاری ہے۔"
امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے بتایا کہ 900کے قریب مزید امریکی شہریوں نے ہمیں بعض موقعوں پر بتایا کہ وہ افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں اور ہم نے یہ یقینی بنایا کہ وہ گھر پہنچ جائیں۔
واضح رہے کہ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کے دوران امریکی حکومت، اداروں اور ذرائع ابلاغ کی مدد کرنے والے وہ ہزاروں افغان باشندے، جنہیں ایک پروگرام کےتحت امریکہ میں بسایا جانا تھا، ابھی تک اپنی دوبارہ آبادکاری کے منتظر ہیں۔
افغانستان سے انخلا کے وقت انہیں امریکہ میں لانے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا تھا کیونکہ انہیں طالبان کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کے خطرات لاحق تھے۔
کیا طالبان بدل گئے؟
امریکہ میں قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن نے کہا ہے کہ افغان طالبان بالکل بھی نہیں بدلے بلکہ ہو سکتا ہے وہ پہلے سے کچھ اور بد تر ہو گئے ہوں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کی ارم عباسی کو اسکائپ کے ذریعے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے لوگوں کے لئے سکون کی یہی صورت ہے کہ وہ ایک بار پھر طالبان سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔
انہوں نے کہا،" امریکہ ، یور پ اور دوسرے ملکوں کے لئے خطرات روزانہ بڑھ رہے ہیں۔"
بولٹن نے کہا کہ "چین اور روس کو وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیاء میں عدم استحکام کی صورت حال سے فائدہ اٹھانے سے باز رکھنا، امریکہ کے لئے اعلیٰ ترین ترجیح ہے۔ اور افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی عدم موجودگی ان امکانات کو بڑھا دیتی ہے۔"
افغان خواتین پر پابندیاں برقرار رہیں گی
منگل کے روز افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے دوسال مکمل ہونے کے موقعے پر طالبان کے اعلیٰ ترجمان نے کہا ہے کہ طالبان سمجھتے ہیں کہ افغانستان پر ان کا کلی اقتدار ہے، جسے اسلامی قانون کے تحت ایک جائز مقام حاصل ہے اور جسے کسی بڑے خطرے کا سامنا نہیں ہے ۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بات افغانستان پر طالبان کی حکومت کے دو سال مکمل ہونے سے ایک روز پہلے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک انٹرویو میں کہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کی تعلیم پر پابندی برقرار رہے گی۔ طالبان نے افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین پر پابندیوں کا آغاز تعلیم پر پابندی ہی سے کیا تھا اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے پابندیوں کا اعلان کرکے افغان لڑکیوں اور خواتین کو تعلیمی اداروں، ملازمتوں اور عام زندگی سے دور کردیا۔
منگل 15 اگست کو افغانستان پر طالبان حکومت کے دوسال مکمل ہونے پرملک میں عام تعطیل تھی۔ پابندیوں کی وجہ سے خواتین کو کسی تقریب میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔
جنوبی شہر قندھار میں جہاں طالبان نے جنم لیا، فوجی عملہ بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ نظر آیا۔ نوجوان شہر میں بائیسکلوں، موٹر سائیکلوں اور کاروں پر جھنڈے لہراتے ہوئے گزرے۔
دارالحکومت کابل میں لڑکے اور مرد پک اپ ٹرکوں میں بھر کر شہر کے چکر لگاتے رہے۔
( وی او اے اردو)
( اس رپورٹ میں کچھ مواد اے پی سے لیا گیا)