سیکیورٹی ایکسچینج کمشن آف پاکستان کے ایڈیشنل جوائنٹ ڈائریکٹر اور 'ڈان' ٹی وی کے سابق رپورٹر ساجد گوندل جمعرات کی شام سے لاپتا ہیں، جب کہ اُن کی گاڑی اسلام آباد کے چک شہزاد روڈ پر واقع محکمۂ زراعت کے ایک تحقیقی مرکز کے باہر کھڑی ملی ہے۔
ساجد گوندل کی اہلیہ سجیلہ ساجد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کے شوہر کا معمول تھا کہ وہ روزانہ شام سات بجے گھر پہنچ جاتے تھے۔
ان کے بقول دفتر سے چھٹی کے بعد ساجد چک شہزاد میں ہی اپنے ایک ڈیری فارم پر جاتے تھے اور وہاں کچھ وقت گزارنے کے بعد گھر آتے تھے۔ لیکن جمعرات کی شام وہ گھر نہیں پہنچے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ان کے شوہر کی گمشدگی کو ایک ہائی پروفائل شخصیت کے متعلق دستاویزات افشا کرنے سے جوڑا جا رہا ہے جو بالکل غلط ہے۔
یاد رہے کہ صحافی احمد نورانی نے 27 اگست کو وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے اہلِ خانہ کے بیرونِ ملک اثاثوں سے متعلق ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی۔
اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ صحافی احمد نورانی کو باجوہ خاندان کے بیرونِ ملک کاروبار سے متعلق ڈیٹا 'ایس سی سی پی' سے ملا ہے۔
خبر کی اشاعت کے کئی روز بعد جمعرات کو عاصم سلیم باجوہ نے اپنے باضابطہ ردِ عمل میں خبر کو بے بنیاد اور اپنی ساکھ پر حملہ قرار دیتے ہوئے اپنے اہلِ خانہ کے اثاثوں کی تفصیلات جاری کی تھیں۔
SEE ALSO: عاصم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق اپنی رپورٹ پر قائم ہوں: احمد نورانیساجد گوندل کی اہلیہ نے وائس آف امریکہ کو مزید بتایا کہ وہ 15 روز قبل ہی شہزاد ٹاؤن میں منتقل ہوئے ہیں۔ اُن کے بقول خاوند کے گھر واپس نہ آنے پر جمعے کی صبح پولیس سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ ساجد کی گاڑی چک شہزاد روڈ پر موجود ہے۔
سجیلہ ساجد نے کہا کہ دو روز قبل شام سات بجے کے قریب ایک خاتون اور ایک مرد ان کے گھر آئے تھے اور ساجد کا پوچھنے پر چھوٹی صاحبزادی نے انہیں بتایا کہ والد صاحب فارم ہاؤس میں ہیں، جس کے بعد وہ چلے گئے اور اس سے اگلے ہی دن ساجد لاپتا ہو گئے۔
پولیس کا مؤقف
شہزاد ٹاؤن تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) حاکم نیازی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اُنہیں ساجد گوندل کے اہلِ خانہ نے جمعے کی صبح ہی فون پر ان کی گمشدگی کی اطلاع دی ہے، جس کے بعد پولیس نے اُن کی گاڑی برآمد کر لی ہے۔
حاکم نیازی کے بقول ساجد کی گمشدگی پر اعلیٰ سطح پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور اس وقت اسلام آباد سیف سٹی کیمروں کی ریکارڈنگ حاصل کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مختلف علاقوں میں موجود پرائیویٹ سی سی ٹی وی کیمروں اور موبائل فون کے ریکارڈ سے بھی ساجد گوندل کا پتا لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حاکم نیازی نے کہا کہ ساجد گوندل کا کوئی پولیس ریکارڈ نہیں اور وہ کبھی کسی جرم میں ملوث نہیں رہے۔ اس لیے ان کی کسی اور علاقے کی پولیس کی طرف سے گرفتاری بھی ممکن نہیں ہے۔
ایس ایچ او شہزاد ٹاؤن نے مزید بتایا کہ ساجد کے اہلِ خانہ نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی ایف آئی آر کے لیے درخواست دیں گے اور جیسے ہی درخواست ملے گی اس کے مطابق مقدمہ درج کر لیا جائے گا۔
ساجد گوندل کون تھے؟
ساجد گوندل اسلام آباد میں ایس ای سی پی میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر ہونے سے قبل 'ڈان' ٹی وی کے لیے اسلام آباد میں بطور رپورٹر کام کر چکے ہیں۔
ساجد گوندل اپنے صحافتی کیریئر کے دوران ایک میگزین بھی نکالتے رہے ہیں۔ لیکن ایس ای سی پی میں ملازمت کے بعد انہوں نے اپنا میگزین بند کر دیا تھا۔
ساجد گوندل کی گمشدگی کے معاملے پر سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے جہاں کئی ایک ان کی گمشدگی کو جنرل عاصم سلیم باجوہ سے متعلق احمد نورانی کی رپورٹ کی اشاعت اور اس رپورٹ کی مبینہ طور پر بنیاد بننے والی 'ایس ای سی پی' کی دستاویزات سے جوڑ رہے ہیں۔
تاہم ساجد گوندل کی اہلیہ اور پولیس نے اس کی تردید کی ہے۔
ساجد گوندل کے اغوا کی مذمت
پاکستان میں ساجد گوندل کی بازیابی سے متعلق ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے جس میں ٹوئٹر صارفین ساجد کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ساجد گوندل کے لاپتا ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے اپیل کی ہے کہ فوری طور پر ان کا پتا لگائیں کہ وہ کہاں ہیں۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بھی ساجد گوندل کے لاپتا ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ بطور حکومت ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ساجد گوندل کی فوری بازیابی عمل میں لائی جائے۔
شیریں مزاری کے بقول پولیس کو مقدمہ درج کرنے کے احکامات دے دیے گئے ہیں۔ ہر شہری کی زندگی کا تحفظ ہمارا قانونی فرض ہے۔