انڈونیشیا سے سنگاپور جاتے ہوئے اتوار کو سمندر میں گر کر تباہ ہونے والے ہوائی جہاز کے ملبے اور مسافروں کی لاشوں کو نکالنے کے لیے کارروائیاں جمعرات کو بھی جاری رہیں لیکن ایک بار پھر خراب موسم ان سرگرمیوں کے آڑے آیا۔
کچھ دیر کے لیے موسم بہتر ہونے پر غوطہ خوروں نے سمندر کی تہہ میں اتر کر تلاش کا کام کیا لیکن پھر تیز ہواؤں اور شدید بارش کے باعث یہ سلسلہ موخر ہو گیا۔
تلاش کا یہ کام بحیرہ جاوا میں جاری ہے جہاں طیارے کے لاپتا ہونے کے دو دن بعد یعنی منگل کو جہاز کے ملبے کی نشاندہی ہوئی تھی اور بدھ تک امدادی کارکنوں نے یہاں سے سات لاشیں نکال لی تھیں۔
جہاز پر عملے سمیت 162 افراد سوار تھے جن میں سے کوئی بھی اس واقعے میں زندہ نہیں بچا۔
جمعرات کی سہہ پہر تک مزید کوئی لاش برآمد نہیں ہوئی جب کہ حکام نے گزشتہ روز ملنے والی لاشوں میں سے ایک کی شناخت کے بارے میں بتایا کہ وہ فضائی میزبان حیاتی لطفیاح حامد کی ہے۔
سنگاپور کی بحریہ نے ایک ایسی مشین پانی میں اتاری ہے جو سمندر کے نیچے کا جائزہ لے کر ملبے اور بلیک باکس سمیت جہاز کے دیگر ضروری ریکارڈرز کی نشاندہی کرے گی۔
انڈونیشیا کی فضائیہ کے ترجمان ریئر مارشل ہادی تجاہجانتو کہنا ہے کہ ان کی توجہ جہاز کے ڈھانچے کا پتا لگانے پر مرکوز ہے۔ " ایک بار ہوائی جہاز سے نیچے سمندر میں ایک سایہ سا نظر آیا تھا لیکن اب تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ یہ تباہ شدہ جہاز کی باقیات ہیں۔"
دریں اثناء انڈونیشیا میں تلاش کی کارروائیوں سے وابستہ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تباہ شدہ جہاز کے بلیک باکس کو ڈھونڈنے میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔
"پہلی چیز یہ ہے کہ پہلے بکھرے ہوئے ملبے کے علاقے کا تعین کیا جائے پھر اس کے بعد بلیک باکس ڈھونڈا جائے۔"
حکام کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں سمندر کی گہرائی 50 میٹر تک ہے جس میں اترنے کے لیے کسی خاص مشین یا آلات کی ضرورت نہیں اور یہاں ماہر غوطہ خور بھی تلاش کا کام کر سکتے ہیں لیکن ان کے بقول تاحال سب سے زیادہ دشواری اس مقام کو تلاش اور تعین کرنے میں ہو رہی کہ جہاں جہاز اصل میں گرا۔
اب تک ملنے والی لاشوں کو انڈونیشیا کے شہر سورابایا منتقل کر دیا گیا ہے جہاں ان کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ تباہ ہونے والا جہاز نے بھی سورابایا سے ہی اڑان بھری تھی۔