پاکستان اور بھارت کشیدگی میں کمی کے اقدامات جاری رکھیں: امریکہ

امریکی محکمہٴ خارجہ کے معاون ترجمان

امریکی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’’ہم سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی مزید فوجی کارروائی صورت حال میں بگاڑ کا باعث بنے گی‘‘۔

امریکہ، پاکستان اور بھارت پر یہ دباؤ جاری رکھے ہوئے ہے کہ وہ کشیدہ صورت حال میں کمی کے لیے اقدامات جاری رکھیں، جس میں براہ راست رابطے بھی شامل ہیں۔

معاون ترجمان رابرٹ پلاڈینو نے ان خیالات کا اظہار منگل کے روز، معمول کی روزانہ پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی۔

ترجمان نے کہا کہ ’’ہمیں اس بارے میں پختہ یقین ہے کہ کوئی بھی مزید فوجی کارروائی صورت حال میں بگاڑ کا باعث بنے گی‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’ اس لیے ہم پاکستان سے یہ مطالبہ دہراتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطالبوں کی پاسداری کرتے ہوئے دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانوں سے بے دخل کرے اور اُن کی مالی وسائل تک رسائی بند کرے‘‘۔

اس سوال کے جواب میں کہ گزشتہ ہفتے ہنوئی میں کیا ہوا تھا، ترجمان نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ’’براہ راست سفارت کاری کی قیادت کی جس نے دونوں فریقوں کے درمیان تناؤ میں کمی لانے میں اہم کردار ادا کیا‘‘۔ اور یہ کہ، ’’اس ضمن میں پومپیو نے بھارتی وزیر خارجہ (سشما) سوارج اور قومی سلامتی کے مشیر ڈوبل؛ اور پاکستانی وزیر خارجہ (شاہ محمود) قریشی سے بھی گفتگو کی‘‘۔

اس سوال پر کہ ہنوئی سربراہ ملاقات کے بعد رابطوں کی کیا صورت حال ہے، ترجمان نے کہا کہ ’’اس کے بعد اعلیٰ سطحی رابطے جاری رہے ہیں‘‘، اور یہ کہ ’’اس کے لیے نئی دہلی اور اسلام آباد کے امریکی سفارت خانوں کے ذریعے دونوں حکومتوں کے ساتھ بات چیت کے ساتھ ساتھ واشنگٹن میں بھارتی اور پاکستانی سفارت خانوں کے ساتھ گفت و شنید بھی شامل رہی ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ رابطے اب بھی جاری ہیں، اور جاری رہتے ہیں‘‘۔

پلاڈینو نے کہا کہ ’’کبھی کبھار ہم پبلک سفارت کاری کرتے ہیں جب کہ کسی وقت یہ نجی سفارت کاری کا درجہ اختیار کر لیتی ہے‘‘۔ بقول اُن کے، ’’موجودہ حالات میں زیادہ تر نجی سفارت کاری کی جا رہی ہے‘‘۔

ایک اور سوال کے جواب میں کہ بھارت یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان نے حملے میں ایف 16 طیاروں کا استعمال کیا، ترجمان نے کہا کہ ’’ہم نے ایسی رپورٹیں دیکھی ہیں جن پر غور کیا جا رہا ہے‘‘۔ تاہم، ترجمان نے کہا کہ ’’میں کسی چیز کی تصدیق نہیں کر سکتا۔ ہم باہمی سمجھوتوں کے معاملے پر کھلا بیان نہیں دیتے‘‘۔