سی پیک کا دوسرا مرحلہ، کیا پاکستان چینی سرمایہ کاروں کو راغب کر سکے گا؟

فائل فوٹو

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق وزیرِ اعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی خالد منصور نے کہا ہے کہ اگر افغانستان میں مستقل امن لوٹ آتا ہے تو سی پیک کو افغانستان اور اس سے آگے توسیع دینے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔

خالد منصور خان نے یہ بات پیر کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ایک ایسے وقت کہی ہے جب سی پیک سے متعلق چین پاکستان کی مشترکہ رابطہ کمیٹی کا اجلاس آئندہ ہفتے ہو گا۔

مذکورہ اجلاس میں پاکستانی اور چینی ماہرین سی پیک کے تحت جاری منصوبوں پر کام کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے علاوہ نئے منصوبوں کے بارے میں بھی غور کریں گے۔

خالد منصور نے کہا کہ سی پیک کے آئندہ مرحلے کے تحت ملک کے چار صوبوں میں ایک، ایک اقتصادی زون قائم کیا جائے گا جہاں چینی اور پاکستانی سرمایہ کار مختلف صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔

خالد منصور کے بقول فیصل آباد میں قائم خصوصی اقتصادی زون میں گزشتہ تین برسوں کے دوران چینی سرمایہ کار 84 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔

اُنہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے چین کے سرمایہ کاروں کے تحفظات اور ان کے مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے سی پیک منصوبوں اور سرمایہ کاری کے لیے ون ونڈو آپریشن کی سہولت فراہم کر دی ہے۔

خالد منصور نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا عمل رک چکا ہے اور سی پیک بھی تعطل کا شکار ہے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خصوصی اقتصادی زون قائم ہونے کے باوجود سرمایہ کاروں کو ان زونز میں سرمایہ کاری پر راغب کرنا ایک چیلنج ہو گا۔

اُن کے بقول جب تک پاکستان میں سستی بجلی اور ان زونز میں دیگر سہولتوں کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جاتا، اس وقت تک سرمایہ کاروں کو راغب کرنا مشکل ہو گا۔ کیوں کہ چین کے سرمایہ کاروں کی توجہ اس وقت مشرقی ایشیا میں ویت نام لاؤس اور کمبوڈیا جیسے ممالک کی طرف ہے جہاں سرمایہ کاری کے لیے بہتر ماحول اور سہولیات دستیاب ہیں۔

حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنا ایک چیلنج ہے کیوں کہ بیرونی سرمایہ کاری میں 30 سے 35 فی صد کمی آ چکی ہے۔

حفیظ پاشا کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمیں چین اور دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف راغب کرنا ہے تو اس کے لیے بجلی گیس اور دیگر سہولیات کی مکمل دستیابی کو یقینی بنانا ہو گا۔

اقتصادی امور کے تجزیہ کار فرخ سلیم بھی حفیظ پاشا سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کو ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے بیرونی سرمایہ کاروں کو مراعات دینا ہوں گی۔

فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری ان شعبوں میں آئے جو معیاری مصنوعات بنائیں جو برآمد کی جا سکے تاکہ پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے۔

تین ارب ڈالرز کی ادائیگی مؤخر کرنے کے لیے چین سے سے بات چیت جاری ہے'

معاون خصوصی منصور نے نیوز کانفرنس کے دوران چین کو واجب الادا تین ارب ڈالر کے قرضے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے لیکن ان کے بقول چینی حکام سے بات چیت جاری ہے یہ معاملہ دونوں ملک خوش اسلوبی سے حل کر لیں گے۔

اگرچہ معاون خصوصی نے اس قرضے کی تفصیل فراہم نہیں کی ہے لیکن اقتصادی امور کے ماہر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ چین نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں غیر ملکی زرِمبادلہ بڑھانے کے لیے یہ رقم رکھوائی ہے۔

SEE ALSO: چین کے طالبان کے ساتھ روابط، خطے کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

حفیظ پاشا کے بقول سی پیک کے تحت ملنے والے قرض کی ادائیگی تو مؤخر ہو سکتی ہے۔ البتہ چین کے مختلف بینکوں کی جانب سے رکھوائے گئے ڈپازٹ کی واپسی بہرحال پاکستان کو کرنا ہو گی۔

'سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے کے امکانات موجود ہیں'

خالد منصور نے کہا کہ افغانستان کے بارے میں وہ پرامید ہیں افغانستان میں سیکورٹی کی صورتِ حال بہتر ہوتی ہے تو سی پیک کو وہاں منسلک کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔

ان کے بقول چین اس خطے اور مشرقِ وسطیٰ میں رابطوں کو بڑھانا چاہتا ہے۔ لہذٰا افغانستان اس حوالے سے اہم ہے۔ یاد رہے کہ طالبان بھی سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔