بہتر زندگی کی تلاش میں اپنے آبائی وطن کو خیرباد کہہ کر اجنبی دیسوں کی جانب نکل جانے والوں میں اب جرمنی کا سرمئی نسل کا بھیڑیا بھی شامل ہو گیا ہے۔
سرمئی بھیٹروں کی نسل کا تعلق یوریشیا سے ہے۔ وہ شمالی امریکہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔اس نسل کے بھیڑے ، دوسرے بھیٹریوں کی نسبت حجم میں بڑے ہوتے ہیں۔ ان میں سماجی شعور بہت زیادہ ہوتا ہے اور ایک خاندان کے بھیٹرے مل جل کر رہتے ہیں جس میں ان کے بچے اور خونی رشتے رکھنے والے بھیٹرے شامل ہوتے ہیں۔ ان کے ایک گروپ میں 2 سے 12 تک بھیڑے ہوتے ہیں۔ بعض بڑے خاندانوں میں 20 سے 30 تک بھیڑیے بھی اکھٹے رہتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔
جرمن نسل کے سرمئی بھیڑیے کی ٹانگیں لمبی اور جبڑا بڑا ہوتا ہے۔ ان میں سونگھنے اور سننے کی حس اور نظر بھی غیر معمولی طور پرتیز ہوتی ہے جسے وہ شکار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
حال ہی میں یونیورسٹی آف بارسلونا کے سائنس دانوں نے ایک تحقیق کے بعد کہا ہے کہ جرمن نسل کے ایک سرمئی بھیڑیے پر نظر رکھنے سے پتہ چلا کہ اس نے ترک سکونت کے لیے تین ملکوں کا سفر کیا اور اس دوران اس نے کم از کم 1240 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا جو اب تک ریکارڈ کیا جانے والا طویل ترین فاصلہ ہے۔
سائنس دانوں کے مشاہدے میں آئے والے اس سرمئی بھیڑے کا سائنسی نام جی ڈبلیو 1909 ایم ہے۔ وہ جرمنی کے ایک علاقے لوئر سیکسنی کے قصبے نورڈ ہورن کے پاس پیدا ہوا۔
اپنے آبائی وطن سے رخت سفر باندھنے کے بعد وہ فرانس کے بارڈر کی طرف گیا۔ فرانس میں داخل ہونے کے بعد بھی اس کا سفر جاری رہا۔ اور پھر وہ سرحد عبور کر کے اسپین داخل ہو گیا۔ جہاں اسے آخری بار کیٹالونیا کے علاقے کے ایک قصبے کیٹالان پیرنیز میں دیکھا گیا۔ ریسرچز کا کہنا ہے کہ اس نے اب وہاں سکونت اختیار کر لی ہے اور گزشتہ سال فروری سے وہیں رہ رہا ہے۔
سرمئی نسل کے بھیٹریے لمبا سفر کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ اس سے قبل ایک بھیڑیے نے ناروے سے فن لینڈ تک کا 1092 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
یونیورسٹی آف بارسلونا کا کہنا ہے کہ جی ڈبلیو 1909 ایم بھیڑیے کی چستی اور ذہانت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اپنے سفر کے دوران وہ گنجان آباد انسانی آبادیوں کے قریب سے گزرا اور اس نے اپنا سفر محفوظ انداز میں طے کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سرمئی بھیٹریے کے سفر کا ریکارڈ رکھنے کے لیے اس پر کوئی سائنسی آلہ یا چپ نصب نہیں کی گئی تھی بلکہ اس کے فضلے کو ریکارڈ کے طور پر استعمال کیا گیا اور اس کے تجزیے میں جرمنی، فرانس اور اسپین کے علاقے کیٹالونیا میں قائم مالیکیولر جنیٹکس لیبارٹریز نے مدد فراہم کی۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے دور دراز علاقوں میں بھیڑیوں کی آبادیوں میں ملاپ کے واقعات ان کی جینیاتی تنہائی دور کرنے اور اپنی نسل کو خالص رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس سفر کا ایک اور مقصد شکار کے بہتر مواقع کی تلاش بھی ہوتا ہے۔
یورپ میں بھیٹریوں کی نسل ختم ہونے کے پیش نظر یورپی یونین نے ان کے تحفظ کے لیے سخت قواعد نافذ کیے تھے جس سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن دوسری جانب دیہی آبادیوں اور ان کے مال مویشیوں پر بھیڑیوں کے حملوں کے واقعات بڑھنے لگے جس کے بعد یورپی یونین کو بھیٹریوں کے تحفظ کے قواعد پر نظر ثانی کرنی پڑی۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)