بھارتی کشمیر میں اسکول کھل گئے، جموں میں 100 فی صد حاضری کا دعویٰ

انتظامیہ نے دو ماہ سے بند اسکولوں کو رواں ماہ 3 اکتوبر سے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اسکول تو کھل گئے تھے۔ لیکن طلبا غیر حاضر تھے — فائل فوٹو

بھارتی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر میں 20 فیصد جبکہ جموں میں 100 فیصد طلبا نے اسکول جانا شروع کر دیا ہے۔

اتوار کے روز بھارتی وزارت داخلہ کے عہدیدار کا جموں و کشمیر انتظامیہ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں لوگوں کی نقل و حمل پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

بھارت کے اخبار ‘ٹائمز آف انڈیا’ کے مطابق ایک لاکھ سے زائد لینڈ لائن ٹیلی فون 18 اکتوبر کو بحال کر دی گئی ہیں جبکہ پچھلے جمعے کو جموں و کشمیر کے 22 اضلاع میں 84 فیصد موبائل سروس بحال کردی گئی تھیں۔

بھارتی خبر رساں ایجنسی 'پی ٹی آئی' کے مطابق کشمیر میں جمعے کے روز تک طلبا کی حاضری 20 فی صد سے زیادہ رہی جبکہ جموں کے تعلیمی میں حاضری 100 فی صد تھی۔

حاضری بڑھانے کے لیے انتظامیہ کی طرف سے پانچویں سے 12ویں جماعت کے امتحانات کا اعلان کیا گیا تھا — فائل فوٹو

جموں و کشمیر انتظامیہ کی جمع کرائی گئی رپورٹ کے حوالے سے وزارت داخلہ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ کشمیر میں 86 فی صد اور جموں میں 100 فی صد اساتذہ جمعے کے روز تک اسکولوں میں حاضر تھے۔

'پی ٹی آئی' کے مطابق جموں و کشمیر میں 98 فی صد اسکولوں میں تدریس کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

تعلیمی اداروں میں حاضری بڑھانے کے لیے جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے پانچویں سے 12ویں جماعت کے امتحانات کا اعلان کیا گیا تھا۔

جموں و کشمیر انتظامیہ نے دو ماہ سے بند اسکولوں کو رواں ماہ تین اکتوبر سے کھولنے کا اعلان کیا تھا تاہم اسکول تو کھل گئے تھے لیکن طلبا غیر حاضر تھے۔

دو ماہ سے بند اسکول رواں ماہ تین اکتوبر سے کھولنے کا اعلان کیا گیا تھا اسکول تو کھلے لیکن طلبا غیر حاضر تھے — فائل فوٹو

یاد رہے کہ بھارت کی حکومت نے 5 اگست کو جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے مرکز کا حصہ قرار دیا تھا۔

جس کے بعد سے وادی میں مختلف پابندیوں کے علاوہ سیاست دانوں و تاجروں کی نظر بندی اور اضافی فوجیوں کی تعیناتی جیسے اقدامات کیے گئے تھے۔

علاوہ ازیں پاکستان نے تنازع کشمیر کو گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی اٹھایا تھا۔

اس مسئلے کے حل کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک سے زائد بار ثالثی کی بھی پیش کش کر چکے ہیں جسے ہر بار بھارت کی طرف سے رد کیا گیا ہے جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی دعوت کو رد نہیں کیا۔

بھارت کا مؤقف ہے کہ جموں و کشمیر میں اس کے اقدامات وہاں کی معاشی ترقی کے لیے اٹھائے گئے ہیں جبکہ پابندیاں عارضی ہیں تاکہ پاکستان سے ہونے والی مبینہ مداخلت کو روکا جاسکے۔

بھارت کشمیر کے تنازع کے حل کے لیے کسی تیسرے فریق کے کردار کو مداخلت قرار دیتا ہے۔ بھارت کا مؤقف ہے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تصفیہ طلب تنازع ہے۔

ایل او سی پر گولہ باری کے تبادلے میں بھی دونوں جانب عام شہریوں اور فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے— فائل فوٹو

بھارتی اقدام کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر بھی حالات کشیدہ ہیں اور دونوں ممالک کی فوج کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں متعدد عام شہری اور فوجی اہلکار نشانہ بن چکے ہیں۔

ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب لائن آف کنٹرول پر ہونے والے گولہ باری کے تبادلے میں بھی دونوں جانب عام شہریوں اور فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔