بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں چھ ماہ بعد اسکول کھل گئے

پچھلے سال اگست میں کشمیر کے خصوصی درجے کی منسوخی کے بعد پیر سے اسکول دوبارہ سے کھل گئے ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پچھلے سال پانچ اگست کو جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کی منسوخی کے بعد سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے بند ہونے والے اسکول چھ ماہ بعد کھل گئے ہیں۔

جموں و کشمیر میں اسکول ایسے موقع پر کھولے گئے ہیں۔ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پہلے سرکاری دورے پر بھارت پہنچ چکے ہیں۔

بھارتی اخبار 'انڈیا ٹوڈے' کے مطابق جموں و کشمیر کے محکمہ تعلیم کی طرف سے اسکولوں کو دوبارہ سے کھولنے کے لیے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے متعدد بار تعلیمی اداروں کو کھولنے کی کوششیں کی گئیں۔ تاہم سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے والدین نے اپنے بچوں کو اسکولوں میں نہیں بھیجا۔

سال 2019 کے اختتام پر جموں و کشمیر میں اسکول کھولے گئے۔ تاہم طلبہ کو یونی فارم کے بغیر اسکول آنے کی ہدایات دی گئیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 13800 اسکول ہیں۔ جن میں 12 لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

'انڈیا ٹوڈے' کے مطابق 'کشمیر اسکول ایجوکیشن' کے ڈائریکٹر محمد یونس ملک نے اسکول کھولے جانے کی تصدیق کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ سرینگر میونسپل کی حدود میں آنے والے اسکول صبح 10 بجے سے دوپہر 3 بجے تک کھلے رہیں گے۔ دیگر علاقوں میں اسکولوں کے اوقات کار صبح ساڑھے دس سے ساڑھے تین بجے تک ہوں گے۔

ڈائریکٹر اسکول محمد یونس ملک کا کہنا ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کا سلیبس مقررہ وقت میں مکمل کرائیں۔

محکمہ تعلیم کی طرف سے فیلڈ افسران کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اسکولوں کا پابندی سے دورہ کریں۔ تاکہ مقررہ اہداف حاصل کیے جا سکیں۔

بھارتی اخبار 'ہندوستان ٹائمز' کے مطابق دو بچوں کی والدہ حسینہ مقبول کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر نے پانچ اگست کے بعد سے سیاسی اور معاشی طور پر بہت نقصان اٹھایا ہے۔

حسینہ مقبول کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے بچوں کی تعلیم کا بہت نقصان ہو چکا ہے اور وہ اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیج کر ان کا مزید نقصان نہیں کرنا چاہتیں۔

حسینہ کے بقول اُنہوں نے اپنے بچوں کا یونی فارم تیار کر رکھا ہے اور ان کی حجامت بھی کروا رکھی ہے۔ انہیں اُمید ہے کہ حالات ٹھیک رہیں گے۔

بھارت حکومت کی طرف سے پچھلے سال اگست میں آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے وادی میں اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بند کردی گئیں تھیں. (فائل فوٹو)

پیر کو اسکول دوبارہ کھولنے کے لیے ہفتے کے روز اساتذہ کو اسکولوں میں سجاوٹ کرنے کی ہدایات بھی دی گئیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 13800 اسکول ہیں۔ جن میں 12 لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

بھارت حکومت کی طرف سے پچھلے سال اگست میں آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے وادی میں اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بند کردی گئیں تھیں۔ وادی میں مواصلاتی رابطے اور انٹرنیٹ سروسز بھی محدود کر دی گئی تھیں۔

یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے مرکز کا حصہ قرار دیا تھا۔ جس کے بعد سے وادی میں مختلف پابندیوں کے علاوہ سیاست دانوں و تاجروں کی نظر بندی اور اضافی فوجیوں کی تعیناتی جیسے اقدامات کیے گئے تھے۔

بھارتی حکومت کے ان اقدامات پر ہمسائیہ ملک پاکستان نے مذمت کی تھی جب کہ عالمی سطح پر بھی بعض ممالک نے ان اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

SEE ALSO: بھارتی کشمیر میں نوجوانوں کے لیے 'اصلاحی کیمپ' بنانے کی تجویز

اس مسئلے کے حل کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک سے زائد بار ثالثی کی بھی پیش کش کر چکے ہیں۔ لیکن بھارت اس معاملے کو دو طرفہ قرار دیتے ہوئے اس پیش کش کو مسترد کرتا رہا ہے۔

بھارت کشمیر کے تنازع کے حل کے لیے کسی تیسرے فریق کے کردار کو مداخلت قرار دیتا ہے۔

بھارتی اقدام کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھی حالات کشیدہ ہیں اور دونوں ممالک کی فوج کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں متعدد عام شہری اور فوجی اہلکار نشانہ بن چکے ہیں۔