قبائلی علاقوں کے تعلیمی اداروں میں داخلہ مہم کا آغاز

فائل

مہم رواں سال کے اواخر تک جاری رہے گی جس کے دوران لگ بھگ دو لاکھ طلبہ کے اسکولوں میں داخلے کو یقینی بنایا جائے گا۔

پاکستان میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے اسکولوں میں طلبہ و طالبات کی تعداد بڑھانے کے لیے جمعے سے خصوصی داخلہ مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

مہم رواں سال کے اواخر تک جاری رہے گی جس کے دوران لگ بھگ دو لاکھ طلبہ کے اسکولوں میں داخلے کو یقینی بنایا جائے گا۔

ایک سرکاری اعلامیے میں ڈائریکٹر تعلیمات قبائلی علاقہ جات نے اس داخلہ مہم کو کامیاب بنانے کے لیے والدین اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں سے کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔

اعلامیے کے مطابق اس مہم کی تجویز 2012ء میں پاکستان کی پارلیمان نے دی تھی جس کے تحت پرائمری سے ثانوی کلاسوں تک تعلیم مفت اور لازمی قرار دی جا چکی ہے۔

اس داخلہ مہم کو کامیاب بنانے کے لیے حکام نے طلبہ و طالبات کے لیے خصوصی وظائف اور نقد انعامات کے علاوہ والدین کے لیے بھی بعض مراعات کا اعلان کیا ہے۔

سرکاری اعلامیے کے مطابق تمام قبائلی علاقوں کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم قابل اور ذہین طلبہ کو ملک کے مختلف معیاری تعلیمی اداروں میں وظائف پر داخلے دلائے جائیں گے۔

اس مقصد کے لیے حکومت نے پہلے ہی 'فاٹا اینڈاؤمنٹ فنڈ' قائم کر رکھا ہے۔

ماہر تعلیم اور 'باچا ایجوکیشن فاؤنڈیشن' کے سربراہ ڈاکٹر خادم حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس داخلہ مہم کو تو خوش آئند قرار دیا مگر ان کا کہنا تھا کہ اس مہم کی کامیابی کے لیے حکومت کو قبائلی علاقوں میں تعلیمی اداروں کو بہتر بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو قبائلی علاقوں میں دہشت گردی، قدرتی آفات اور فوجی کارروائیوں کے دوران تباہ ہونے والے تعلیمی اداروں کی از سرِ نو تعمیر کے علاوہ مزید تعلیمی ادارے بھی قائم کرنے چاہئیں۔

انھوں نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران دہشت گردی اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باعث مختلف قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں خاندانوں کے بچے بھی تعلیم سے محروم ہوئے ہیں جن کے لیے حکومت کو اقدامات کرنا ہوں گے۔

ادھر خیبر پختونخوا حکومت نے ان 300 بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ دینے کی پیشکش کی ہے جو پشاور میں سکھ برادری کے زیرِ انتظام چلنے والے ایک پرائیویٹ اسکول کی بندش کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔

ان بچوں کی اکثریت کا تعلق پشاور کی سکھ اور ہندو برادری سے ہے۔ مذکورہ پرائیویٹ اسکول شہر کے وسطی علاقے آسیہ گیٹ میں کرائے کی ایک عمارت میں قائم تھا جس کو عمارت کے مالک نے چند ہفتے قبل فروخت کر دیا ہے۔

صوبے کے پرائمری اور ثانوی تعلیم کے محکمے کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کا نجی عمارتوں اور املاک کے مالکان اور ان میں قائم نجی تعلیمی اداروں اور ان کی انتظامیہ کے مابین کرائے داری سے متعلق تنازعات میں کوئی کردار نہیں۔

بیان میں بند ہونے والے اسکول کے طلبہ و طالبات کو سرکاری اسکولوں میں داخلے کی پیشکش کی گئی ہے۔