سپریم کورٹ: کرونا وائرس کے باعث قیدیوں کی رہائی سے متعلق فیصلے کالعدم

فائل فوٹو

پاکستان میں سپریم کورٹ نے اسلام آباد، سندھ اور لاہور ہائی کورٹس ‏کے کرونا وائرس کے پیش نظر قیدیوں کی رہائی سے متعلق فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے رہا کیے گئے قیدیوں ‏‏کو دوبارہ گرفتارکرنے کا حکم ‏دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی قیدیوں سے متعلق سفارشات تسلیم کرلی ہیں۔ عدالت ‏نے قرار دیا ہے کہ حالات چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں قانون کا قتل نہیں ہونا چاہیے۔ ‎

سپریم کورٹ نے کرونا وائرس کےباعث انڈر ٹرائل قیدیوں کی رہائی سے متعلق ہائی ‏کورٹس اور صوبائی ‏‏حکومتوں کے فیصلے کے خلاف درخواست کو قابل ‏سماعت قرار دیتے ہوئے رہا کیے گئے قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

عدالت ‏نے ہائی کورٹس کے احکامات کالعدم قرار دیتے ہوئے سنگین جرائم، نیب اور ‏‏منشیات کے ‏مقدمات میں دی گئی ضمانتیں بھی منسوخ کر دیں۔

عدالت نے قیدیوں کی رہائی سے متعلق ‏اٹارنی جنرل ‏‏کی تجاویز منظور کرلیں۔ ‏

جسٹس قاضی امین کے تحریر کردہ 10 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ ‏دلیل درست نہیں کہ گنجائش سے زیادہ قیدیوں کے باعث کرونا پھیل سکتا ہے۔ وائرس ‏سے متاثرہ شخص نہ ہو تو جیلیں محفوظ مقام ہوں گی۔ رہائی کے بجائے قیدیوں کی ‏اسکریننگ کرنے کی ضرورت ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون میں طریقہ ‏کار واضح ہے۔ ہائی کورٹ ہیلتھ ایمرجنسی کی بنیاد پر اجتماعی ضمانتیں نہیں دے ‏سکتی۔ ہائی کورٹس کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں۔ حالات کیسے بھی ہوں قانون کا ‏قتل نہیں ہونا چاہیے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسے ملزمان جن کی عمر 55 سال سے زیادہ ہے وہ رہائی ‏کے مستحق ہوں گے۔ رہائی کی خصوصی رعایت کا اطلاق خواتین اور بچوں پر بھی ‏ہو گا۔ ماضی میں کریمنل ریکارڈ نہ رکھنے والے ملزمان بھی رہائی کے مستحق ہوں ‏گے۔

عدالت نے سندھ اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی جانب سے قیدیوں کی رہائی بھی کے احکامات بھی کالعدم ‏قرار دے دیے ہیں۔

چند روز قبل صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سید قلب حسن نے بھی ایک رپورٹ پیش کی تھی جس کا عنوان تھا کہ ’پاکستانی قیدی کرونا وائرس کی وجہ سے خطرے میں کیوں ہیں‘۔

رپورٹ میں فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 114 جیلوں میں 57 ہزار 742 قیدیوں کی گنجائش ہے لیکن 77 ہزار 275 قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ان 77 ہزار سے زائد قیدیوں میں سے 25 ہزار 456 سزا یافتہ ہیں جب کہ ایک بڑی تعداد یعنی 48 ہزار قیدی وہ ہیں جن کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔
اسی طرح خواتین کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد ایک ہزار 184 ہے جب کہ ضعیف یعنی 60 سال کی عمر سے زائد کے قیدیوں کی تعداد تقریباً 1500 ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 20 مارچ کو کرونا وائرس کے باعث اڈیالہ جیل میں موجود معمولی جرائم والے قیدیوں کو ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں 24 مارچ کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر 408 قیدیوں کی ضمانت پر مشروط رہائی کا بھی حکم دیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے مذکورہ احکامات کے بعد ٍسید نایاب حسن گردیزی نے راجہ محمد ندیم کی جانب سے سپریم کورٹ میں 6 صفحات پر مشتمل پٹیشن دائر کی تھی جس میں قیدیوں کی رہائی کے ہائی کورٹ کے فیصلوں کو چیلنج کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے پہلی ہی سماعت پر تمام ہائی کورٹس اور صوبائی حکومتوں، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کی انتظامیہ سمیت متعلقہ حکام کو زیر سماعت قیدیوں کی کرونا وائرس کے باعث جیلوں سے رہائی یا اس سلسلے میں کوئی بھی حکم دینے سے روک دیا تھا۔

سپریم کورٹ میں آٹا چینی اسکینڈل کی بازگشت

سپریم کورٹ میں کرونا پھیلاؤ روکنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ملک میں آٹا اور چینی اسکینڈل کی رپورٹ کا تذکرہ بھی آیا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو آٹا چینی کا مسئلہ درپیش ہے جب کہ بڑے بڑے لوگ ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ بلوچستان میں ڈاکٹروں کے حوالے سے کیا اطلاعات ہیں؟

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ تمام ڈاکٹرز کو رہا کر دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ ڈاکٹرز صورت حال پر حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتے ہیں تاہم ڈاکٹرز کی اکثریت بہترین فرائض سر انجام دے رہی ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والے ڈاکٹرز کی مستقلی کا معاملہ تھا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کس کی جرات ہے حکومت کو بلیک میل کرے۔ حکومت قانون سازی کرے اور بلیک میل کرنے والوں کو گرفتار کرے۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کو حکم دیا کہ موجودہ صورت حال میں ڈاکٹرز کو جو چیزیں درکار ہیں وہ روزانہ کی بنیاد پر فراہم کی جائیں۔ جتنی کٹس اور سہولیات دستیاب ہیں وہ فراہم کریں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مقامی حکومتیں ہوتیں تو لوگوں کی نچلی سطح پر مدد ہوتی۔ حکومت نے مقامی حکومتوں کو خود غیر موثر کر دیا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو آٹے اور چینی کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ حکومت خود اپنے لیے مسائل کھڑے کر رہی ہے۔ بڑے بڑے لوگ ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ آٹا چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے لائی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کرونا کی وبا سے لڑنے کے لیے ہنگامی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ کو نئے قانون بنانے چاہئیں۔

عدالت نے حکومت کو تفتان، چمن، طور خم پر فوری طور پر ایک ہزار بستروں پر مشتمل قرنطینہ مراکز بنانے اور انہیں ایک ماہ میں مکمل فعال کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر 13 اپریل تک ملتوی کر دی۔