پرویز الٰہی نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھا لیا

رات دو بجے ایوانِ صدر میں تقریبِ حلف برداری کے لیے پرویز الٰہی خصوصی طیارے سے اسلام آباد پہنچے تھے۔

پرویز الٰہی نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھا لیا۔ان سے پاکستان کے صدر عارف علوی نے حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب اسلام آباد میں ایوانِ صدر میں ہوئی۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اسمبلی میں وزیرِ اعلٰی کے انتخاب کے دوران ڈپٹی اسپیکر کی رُولنگ پر فیصلہ سناتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا تھا اور پرویز الٰہی کو وزیراعلی قرار دیا تھا۔ چیف سیکریٹری پنجاب نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر پرویز الہیٰ کے بطور وزیراعلی انتخاب کا نوٹیفیکشن جاری کیا۔

سپریم کورٹ کی طرف سے حمزہ شہباز کو دفتر فوری طور پر خالی کرنے اور پرویز الہیٰ کے لیے بطور وزیرِ اعلیٰ نوٹیفیکیشن جاری کرنے کے حکم کے بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے پرویز الٰہی سے حلف لینے سےمعذرت کر لی تھی۔

رات دو بجے ایوانِ صدر میں تقریبِ حلف برداری کے لیے پرویز الٰہی خصوصی طیارے سے اسلام آباد پہنچے تھے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حمزہ شہباز کا اختیار فوری طور پر ختم کیا جاتا ہے وہ فوری طور پر دفتر خالی کر دیں۔ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں ڈالے گئے ووٹوں میں حمزہ شہباز کے ووٹ 179 اور پرویز الہٰی کے ووٹ 186 ہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکم دیا ہ کہ حمزہ شہباز اور ان کی تمام کابینہ فوری طور پر اپنے عہدے چھوڑ دیں۔ سپریم کورٹ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے انتخاب سے متعلق کیس میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل عرفان قادر اور پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔

حکمراں اتحاد کے بائیکاٹ کے بعد تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے وکلا نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد سنایا گیا۔

فیصلے پر فوری ردعمل:

پاکستان مسلم لیگ نواز کے سپریم راہنما اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے فیصلے پر اپنے ردعمل میں ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ملک کو تماشا بنا دیا گیا ہے۔ فیصلہ کرنے والے ججوں کو سلام۔

اسی ٹویٹ پر مسلم لیگ نواز کی قائد مریم نواز نے کہا ہے کہ انصاف کا قتل نامنظور۔

تحریک انصاف کے چئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ وہ جج صاحبان لائق تحسین ہیں جو آئین و قانون کی بالادستی کے لیے ہر طرح کی دھمکیوں کے سامنے ڈٹے رہے۔

عمران خان نے کہا ہے کہ وہ بدھ کی شام اس فیصلے پر تشکر اور جشن کے لیے اکٹھے ہوں گے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما طلال چوہدری نے جیو ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے فیصلے کے بارے میں کہا کہ یہ انصاف کی شکست ہے اور یکطرفہ فیصلہ ہے۔ ہم اس مقدمے کا حصہ نہیں بنے اور نہ ہم کو سنا گیا۔ ایک خاص قسم کے بنچز سے انیٹی نواز لیگ فیصلے بڑی دیر سے آ رہے ہیں۔ ہم عوام کی عدالت بھی جائیں گے اور جو قانونی چارہ جوئی ہو سکی، وہ کریں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر راہنما اور قانون دان نیر بخاری نے بھی نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے۔ بظاہر عدالت کے آج کے فیصلے اور اس فیصلے میں تضاد ہے جب تحریک انصاف کے منحرفین کے ووٹوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔

تحریک انصاف نے وائس چئیرمین شاہ محمود قریشی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مخالفین نے اپنی عددی اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کیا۔

انہوں نے کہا کہ عوم نے وفاداریاں بدلنے والوں کو مسترد کر کے عمران خان کے موقف پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ شاہ محمود کے بقول ڈپٹی اسپیکر نے آئین کو روندا ا ور اصولوں کی پاسداری نہیں کی۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر آنے کا پاس بھی نہیں رکھا۔ شاہ محمود نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور سپریم کورٹ نے خندہ پیشانی سے نواز لیگ کی دھمکیوں کو برداشت کیا اور اپنی ذمہ داری نبھائی۔

انہوں نے وزیرقانون کے عدالت امیں دلائل دینے پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے ججز کو مرعوب کرنے کی کوشش کی۔ آج ثابت ہو گیا کہ پاکستان کی عدلیہ آزاد ہے اور آئین کے تحفظ کے لیے پر عزم ہے۔

تحریک انصاف ہی کے سینئر راہنما اسد عمر نے بھی میڈیا سے گفتگو کی اور عدالت کے فیصلے کی روشنی میں پرویز الہٰی کو وزیراعلی بننے اور وکیل علی ظفر کو مقدمہ جیتنے پر مبارکباد دی۔ ان کا کہنا تھا کہ علی ظفر نے تین بڑے کیس جیت کر ہیٹ ٹرک کی ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ پچھلے چار ماہ میں پاکستان کی سیاست نے نیا رخ اختیار کیا ہے۔ بند کمروں کی سازش سے اقتدار چھیننا پہلی مرتبہ نہیں ہوا لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ نکالے جانے والا لیڈر جھکنے پر تیار نہیں تھا اور قوم اس لیڈر کے ساتھ کھڑی ہو گئی

عوام نے ثابت کیا ہے کہ وہ قوم بن چکے ہیں اور کسی کی ڈکٹیشن لینے کو تیار نہیں ہیں۔

اسد عمر نے پیپلز پارٹی کے شریک چئرمین آصف علی زرداری کے حوالے سے کہا کہ جن لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ سب پر بھاری ہیں، وہ ایک خط لہرا کر عوام کا مینڈیٹ نہیں چھین سکے ہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ حکومتی اتحاد جس بنچ پر سوال اٹھا رہے ہیں، یہ تینیوں ججز اس بنچ کا حصہ تھے جس کے فیصلے تحت عمران خان کی حکومت ختم ہوئی۔انہوں نے کہا کہ اگر کسی نے گورنر راج لگانے کی کوشش کی تو منہ کی کھائے گا۔

دن بھر عدالت میں کیا ہوا؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں منگل کو ڈپٹی اسپیکر رولنگ کے خلاف چوہدری پرویز الہیٰ کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل عرفان قادر روسٹرم پر آئے۔

عرفان قادر نے فاضل ججز سے کہا کہ " مجھے موکل نے کہا ہے کہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں، ہم فل کورٹ کی استدعا مسترد کرنے کے حکم کے خلاف نظر ثانی دائر کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی روسٹرم پر آ کر کہا کہ پپیلز پارٹی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوگی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ ٹھیک ہے آپ سیٹ پر بیٹھ جائیں۔ پیپلز پارٹی کو کیس میں فریق ہی نہیں بنایا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے کے حوالے سے دلائل دیے گئے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل سے کیس مزید لٹک جانا تھا، ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے ججز دستیاب نہیں۔

عدالتِ عظمیٰ نے پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران حکومتی اتحاد کی فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں اور اپنے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ اس کی وجوہات تفصیلی فیصلے میں بتائی جائیں گی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ کی درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے اکثریتی ووٹوں کے باوجود حمزہ شہباز کو وزیرِ اعلیٰ قرار دیا ہے اس لیے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا جائے۔

SEE ALSO: کیا سیاسی جماعتیں اپنے بیانات سے عدلیہ پر دباؤ ڈال سکتی ہیں؟

چوہدری پرویز الہٰی کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل دیے کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے آرٹیکل 63 اے کو خلافِ آئین قرار دیا تھا ۔

اُن کا کہنا تھا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ کی رائے تھی کہ آرٹیکل 63 اے ارکان کو آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلے میں اپنی رائے کی وجوہات بیان نہیں کی تھیں۔

دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم کے کیسز میں آرٹیکل 63 کی شقوں کا سطحی جائزہ لیا گیا۔

'جج کا بار بار اپنی رائے تبدیل کرنا اچھی مثال نہیں'

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے پارٹی لیڈر کا معاملہ ماضی میں کبھی تفصیل سے نہیں دیکھا گیا۔ جج کا بار بار اپنی رائے تبدیل کرنا اچھی مثال نہیں ہوتی۔جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے۔ٹھوس وجہ کے بغیر اپنی رائے تبدیل نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کوئی واضح قانون سامنے آئے تو معذرت کر کے رائے تبدیل کر لوں گا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ نہیں دیا گیا۔

اس دوران پرویز الہٰی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل مکمل کر لیے اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ خط پولنگ سے پہلے پارلیمانی پارٹی کے سامنے پڑھا گیا تھا یا نہیں؟عدالت کے سامنے سوال یہ بھی ہے کہ فیصلے کو ٹھیک سے پڑھا گیا یا نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسرے فریق سن رہے ہیں، لیکن کارروائی میں حصہ نہیں لے رہے۔ اس وقت ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے اقوام متحدہ میں مبصر ممالک کی ہوتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن اور فاروق نائیک میں دلچسپ مکالمہ

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر کچھ بہتری آ سکتی ہے تو عدالت سننے کے لیے تیار ہے۔ اس پر فاروق نائیک نے جواب دیا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مقدمات میں ہم پارٹی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ 22 جولائی کو وزارتِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں حمزہ شہباز نے 179 اور پرویز الہیٰ نے 186 ووٹ حاصل کیے تھے۔ تاہم ڈپٹی اسپیکر نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے ایک خط کو جواز بنا کر (ق) لیگ کے ارکان کے پرویز الہیٰ کو پڑنے والے ووٹ مسترد کر دیے تھے۔

پرویز الہیٰ نے 22 جولائی کو ہی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا تھا۔

سپریم کورٹ نے پیر کو درخواست پر سماعت کے دوران قرار دیا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق فیصلہ منگل کو کیا جائے گا۔

بینچ کے ایک رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت نے تعین کرنا ہے وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب درست تھا یا نہیں؟ سوال بس اتنا ہے کہ اگر ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کو غلط سمجھا ہے تو ہم اس کو درست کریں۔ کیسز کا پنڈورا بکس نہیں کھول سکتے۔