بھارتی کشمیر کا نو عمر ماحولیاتی کارکن

"میں بے حد خوش ہوں کہ وزیرِ اعظم نے میری کوشش کو سراہا۔ میں اُن کا تہہ دِل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔" یہ ہیں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے نوعمر کباڑیے بلال احمد ڈار کے الفاظ۔

بلال صرف 12 سال کا تھا جب اُس نے دارالحکومت سرینگر سے تقریباً 34 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وُلر جھیل میں بہنے والے کوڑا کرکٹ کو جمع کرنا شروع کیا تھا۔

وُلر براعظم ایشیا کی تازہ پانی کی دوسری سب سے بڑی جھیل ہے۔ لیکن یہ جھیل ماحولیاتی آلودگی کی لپیٹ میں آچکی ہے جس کے باعث جھیل میں پانی کی وسعت 273 مربع کلومیٹر سے سکڑ کر صرف 72 مربع کلومیٹر رہ گئی ہے۔

بِلال جھیل کے پانی پر تیرنے والی پلاسٹک کی بوتلوں، پالیتھین اور دوسرے سم آلود کچرے کے ساتھ ساتھ جانوروں کی لاشوں کو اُٹھا اُٹھا کر ایک کشتی میں جمع کرتا ہے۔

یہ کچرا دریائے جہلم اور ندی نالوں کے پانی کے ساتھ بہہ کر وُلر میں داخل ہوتا ہے۔

پھر وہ انہیں خشکی پر لے جاکر دوبارہ کارآمد بن جانے والی چیزوں کو اسکریپ ڈیلروں کو بیچ دیتا ہے اور ناقابلِ استعمال مواد کو بلدیہ کے کوڑے دانوں میں ڈال دیتا ہے۔

دراصل بلال نے یہ کام اپنا، اپنی والدہ اور دو بہنوں کا پیٹ پالنے کے لیے شروع کیا تھا۔

وہ چھٹی جماعت میں تھا جب اُس کے والد محمد رمضان ڈار سرطان کے عارضے میں مُبتلا ہوکر چل بسے تھے اور اپنے بیوی بچوں کو بے یارومدگار اور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں پیچھے چھوڑ گئے تھے۔

بلال کے بقول، "ایک دن جب میں نے والدہ سے اسکول میں فیس جمع کرانے کے لیے پیسے مانگے تو انہوں نے کہا کہ اُن کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔ میں نے اسکول جانا بند کردیا اور جب گھر میں نوبت فاقہ کشی تک پہنچی تو میں نے جھیل کے پانی میں تیرنے والی چیزوں کو جمع کرکے انہیں کباڑیے کو بیچ کر کمانا شروع کردیا۔"

بلال کو اس کام سے روزانہ دو سو سے ڈھائی سو روپے ملتے ہیں۔ اُس نے بتایا، "کمائی کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات پر بے حد خوشی اور اطمینان حاصل ہورہا ہے کہ میں وُلر کو مزید آلودگی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کررہا ہوں۔"

اُس کی والدہ مغلی بیگم کا کہنا ہے، "وہ معصوم تھا لیکن گھر کی حالت اُس سے برداشت نہ ہوسکی اور وہ کمانے نکلا۔ دو یا اڑھائی سو کوئی بڑی رقم نہیں۔ لیکن اس سے ہمارے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہوگیا- اللہ اُسے ہمیشہ سلامت اور خوش رکھے۔"

بِلال وُلر کے کنارے واقع لہروار (گھاٹ) گاؤں میں اپنے گھر سے پو پھٹتے ہی وُلر میں کوڑا کرکٹ جمع کرنے نکلتا ہے اور سورج غروب ہونے سے پہلے دن بھر جمع کیا گیا مواد بیچ کر یا اسے کوڑے دانوں میں ڈال کر اپنی والدہ اور چھوٹی بہن کے پاس لوٹتا ہے۔

اُس کی بڑی بہن کی کچھ عرصہ پہلے ایک قریبی گاؤں میں شادی ہوگئی تھی۔ بِلال کا کہنا ہے اس کی والدہ اس سے بے حد مطمئن ہیں۔

"جیسے بھی گزر رہی ہے، ہم اپنی زندگی سے مطمئن ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ میں نے وُلر کو یہ سوچ کر صاف کرنا شروع کیا تھا کہ اس سے میری کمائی کا بندوبست ہوگا اور ہمارے آس پاس کا ماحول بھی صاف ہوگا۔"

بِلال کی یہ کوشش اور محنت رائیگاں نہیں گئی۔ ماحولیاتی سائنس کے فلمساز جلال الدین بابا نے کچھ عرصہ پہلے بلال پر ایک ڈاکیو منٹری فلم 'سیونگ دی سیویئر' بنائی جس کے ریلیز ہوتے ہی بلال راتوں رات لوگوں اور ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

فلم کے بعد سرینگر میونسپل کارپوریشن نے بلال احمد ڈار کو اپنا برانڈ سفیر مقرر کرتے ہوئے اُسے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے طول و عرض میں ماحولیاتی بیداری پیدا کرنے کا کام سونپا ہے۔

اس کام کے بلال کو ماہانہ ساڑھے آٹھ ہزار روپے معاوضے کے طور پر دیے جائیں گے۔ نیز کارپوریشن نے اُسے ایک گاڑی بھی فراہم کردی ہے اور حکومت نے اسے ایک موٹر بائیک دینے اور دوسری سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

بلال کے بقول، "لگتا ہے ہماری دنیا بدل رہی ہے۔ میں نے والدہ سے کہا ہے کہ اب میری چھوٹی بہن اسکول جاسکتی ہے۔"

بلال کو اُس کے قابلِ قدر کام کے اعتراف میں کئی ایوارڈ اور اسناد مل چکی ہیں اور اُسے تعلیمی اداروں کی تقریبات میں مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا جانے لگا ہے۔

تاہم اُس کی خوشی کا اُس وقت کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 24 ستمبر کو ریڈیو پر اپنے ماہانہ پروگرام 'من کی بات' میں اُس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "بلال ہم سب کے لیے فیضان کا ذریعہ ہے۔"

بھارتی وزیرِ اعظم نے بلال کو وُلر کو صاف کرنے میں مدد دینے پر اُس کا شکریہ اد کیا اور سرینگر میونسپل کارپوریشن کو سراہا کہ اس نے اُسے اپنا برانڈ امبیسیڈر بنادیا۔

اپنے پروگرام میں نریندر مودی کا کہنا تھا کہ جب بھی برانڈ امبیسیڈر کی بات ہوتی ہے تو ذہن میں فوراً کسی فلمی اداکار یا کھیل کو د کی دنیا کی کسی شخصیت کا خیال آتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں بلال ڈارصفائی کی مہم کے ساتھ 12 یا 13 سال کی عمر میں وابستہ ہوا تھا اور وہ گزشتہ پانچ یا چھ سال سے مسلسل اس کام میں لگا ہوا ہے اور اس کام سے کماتا بھی ہے۔

بھارتی وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ بلال ابھی چھوٹا ہے لیکن وہ ہم سب کے لیے جو صفائی اور نفاست میں دلچسپی رکھتے ہیں حوصلہ افزائی اور فیضان کا ذریعہ ہے۔

بِلال کو توقع ہے کہ اُس کے بارے میں بھاتی وزیرِ اعظم کے قدردانی کے کلمات اور اُس کے کام کی تعریف اُس کے گاؤں کو درپیش مسائل حل کرنے کا موجب بنیں گے۔

اس کے بقول اس کے گاؤں کے مکین پینے کا صاف پانی دستیاب نہ ہونے اور وہاں تک سڑک کی عدم موجودگی کے باعث مشکلات کا شکار ہیں اور اسے امید ہے کہ متعلقہ حکام اب انہیں درپیش مسائل کا ازالہ کریں گے۔

فلمساز جلال الدین بابا بلال کو اور آگے لے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ وزیرِ اعظم کی طرف سے وُلر کو درپیش ماحولیاتی مسائل کا ذکر ایسے اقدامات کی راہ ہموار کرے گا جو اسے موجودہ ابتر صورتِ حال سے باہر لانے میں مدد گار ثابت ہونگے۔

بابا کے بقول یہ جھیل مر چکی ہے اور اسے دوبارہ زندہ کرنے کے لیے معمولی نہیں بلکہ بڑے اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔

لیکن ان کے بقول ایسا کرنا صوبائی حکومت کے بس میں نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس وسائل ہیں اور نہ صلاحیت۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام نئی دہلی میں موجود اعلیٰ حکام کی مداخلت سے ہی ممکن ہے۔