سعودی عرب کے وزیر برائے مذہبی امور نے مساجد کے اسپیکرز کی آواز کم کرنے اور اس کا صرف اذان و اقامت کے لیے استعمال کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔
وزیرِ مذہبی امور کا کہنا ہے کہ یہ اقدام شہریوں کی جانب سے شکایات کے بعد کیا گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے سعودی عرب کی وزارتِ مذہبی امور نے مساجد کے اسپیکرز کے حوالے سے اہم پالیسی نافذ کی تھی جس کے تحت اسپیکرز کی آواز کا اس کی ایک تہائی پر استعمال کیا جائے گا۔ جب کہ اسپیکرز صرف اذان اور نماز سے قبل اقامت کے لیے ہی استعمال ہوں گے۔
قبل ازیں مساجد میں پوری نماز کی ادائیگی کے دوران اسپیکر کھلے رہتے تھے۔
فيديو | وزير #الشؤون_الإسلامية لـ #الإخبارية: قصر #مكبرات_الصوت على الأذان والإقامة لما تسببه الأجهزة من أذية للناس ومن لديه رغبة في الصلاة لا يتأخر pic.twitter.com/0l9q61Pi1h
— قناة الإخبارية (@alekhbariyatv) May 31, 2021
مساجد کے اسپیکرز کے استعمال کے حوالے سے وزیرِ مذہبی امور عبد الطیف الشیخ نے پیر کو ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ یہ اقدام شہریوں کی ان شکایات کے بعد کیا گیا ہے جو تیز آواز کو بچوں اور بڑی عمر کے افراد کے لیے پریشان کن قرار دیتے رہے ہیں۔
نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق عبد الطیف الشیخ کا کہنا تھا کہ وہ افراد جن کو نماز ادا کرنی ہوتی ہے وہ اذان کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اس سے قبل ہی مسجد میں موجود ہوتے ہیں۔
انہوں نے اسپیکر کم سے کم استعمال کرنے کی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کئی ٹی وی چینلز ایسے ہیں جو نماز اور قرآن کی تلاوت پیش کرتے ہیں۔
حکومت کی نئی پالیسی کا ایک جانب جہاں کئی مساجد میں خیرمقدم کیا گیا ہے تو سوشل میڈیا پر اس پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
ويستند تعميم معالي الوزير إلى الأدلة الشرعية منها قول النبي صلى الله عليه وسلم: (إن كلكم مناجٍ ربه فلا يؤذين بعضكم بعضاً، ولا يرفع بعضكم على بعض في القراءة) أو قال: (في الصلاة) رواه أحمد بإسناد صحيح، وعملاً بالقاعدة الفقهية (لا ضرر ولا ضرار) …
— وزارة الشؤون الإسلامية 🇸🇦 (@Saudi_Moia) May 23, 2021
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق حالیہ پالیسی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان ملک میں بعض سماجی پابندیوں کو ختم کرتے ہوئے سیاسی اختلاف رائے سے سختی سے نمٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
محمد بن سلمان سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے بیٹے ہیں۔ ان کو 2017 میں ملک کا ولی عہد بنایا گیا تھا اس وقت ان کی عمر صرف 31 برس تھی۔ اس کے بعد وہ ملک میں کئی پالیسیاں تبدیل کر چکے ہیں۔ جن میں سب سے بڑی تبدیلی 2017 میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا قرار دی جاتی ہے۔ بعد ازاں خواتین کو شوہر کی اجازت کے بغیر کاروبار کرنے کی بھی اجازت دی گئی۔
گزشتہ برسوں میں سعودی عرب میں سنیما گھر کھولنے اور موسیقی کی تقربیات کا انعقاد، تفریحی مقامات پر عورتوں کو جانے کی اجازت دینا اور ان کے ڈرائیونگ کے حق کو تسلیم کرنا جیسی کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
اس طرح معاشی پالیسی میں تبدیلی کی جا رہی ہے اور ملک کی معیشت کا انحصار تیل سے ختم کیا جا رہا ہے جس کے لیے ’وژن 2030‘ کے نام سے منصوبہ بنایا گیا ہے۔
ایسے میں مساجد میں اسپیکر کے استعمال پر لگائی گئی قدغن کی وجہ سے سوشل میڈیا پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔