اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ دُنیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ایمیزون کے سربراہ جیف بیزوس کا فون ہیک کرنے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بدھ کو اقوام متحدہ کی جانب سے یہ رپورٹ عام کیے جانے کا امکان ہے۔ جس میں امریکہ اور سعودی عرب کے حکام سے اس ضمن میں مزید تحقیقات کرنے کی سفارش کی جائے گی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیف بیزوس کی سیکیورٹی ٹیم نے مستند فرانزک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں واضح ہوا ہے کہ محمد بن سلمان کے زیرِ استعمال واٹس ایپ نمبر سے جیف بیزوس کو بھیجی گئی ویڈیو کے ذریعے اُن کا فون ہیک کیا گیا۔
پیش رفت سے آگاہ اقوامِ متحدہ کے اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ رپورٹ میں درج ہے کہ 2018 میں محمد بن سلمان کی جانب سے بھیجی گئی ویڈیو کے ایک ماہ بعد جیف بیزوس کے فون سے ڈیٹا حذف ہونا شروع ہو گیا تھا۔
غیر جانب دار ماہرین سے مشاورت کے بعد اقوامِ متحدہ نے فیصلہ کیا ہے کہ معاملے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے اجرا سے سعودی عرب اور جیف بیزوس کے تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی بیزوس کے ملکیتی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' میں کالم لکھتے تھے۔ جمال خشوگی کو دو اکتوبر 2018 میں ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
صحافی جمال خشوگی سعودی حکومت اور شاہی خاندان سمیت ولی عہد محمد بن سلمان کے بڑے ناقد سمجھے جاتے تھے۔
امریکہ اور بعض مغربی ممالک نے جمال خشوگی کے قتل کا ذمہ دار سعودی حکومت کو ٹھہرایا تھا لیکن وہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے تھے۔ تاہم قتل سے متعلق شواہد سامنے آنے کے بعد بالآخر سعودی عرب نے تسلیم کیا تھا کہ خشوگی قونصل خانے میں تفتیش کے دوران بعض سعودی اہلکاروں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
اس سے قبل برطانوی اخبار 'گارڈین' نے خبر شائع کی تھی کہ جیف بیزوس کا فون ہیک کرنے میں سعودی ولی عہد ملوث ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ محمد بن سلمان کے فون سے بھیجی گئی فائل کے ذریعے بیزوس کا فون ہیک کیا گیا اور بڑی مقدار میں ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ تاہم امریکہ میں سعودی سفارت خانے نے سعودی ولی عہد کے اس معاملے میں ملوث ہونے کی خبروں کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔
ٹوئٹر پیغام میں سعودی سفارت خانے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد پر غلط الزامات لگائے گئے ہیں۔ البتہ اس معاملے کی مکمل چھان بین کر کے حقائق سامنے لائے جانے چاہئیں۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ ایگنس کالمارڈ اور آزادی اظہار رائے سے متعلق نمائندے 'ڈیوڈ کے' کی جانب سے جاری کی جائے گی۔
ایمیزون کی جانب سے اس پیش رفت پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
سعودی عرب اور ایمیزون کے چیف ایگزیکٹو کے تعلقات میں سرد مہری کا آغاز گزشتہ برس کے آغاز پر ہوا تھا۔ اس دوران یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ سعودی حکومت نے جمال خشوگی کی ہلاکت کے بعد واشنگٹن پوسٹ کی کوریج پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔