انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب نے گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران یمن کی سرحد سے ملک میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے ایتھوپیا کے سینکڑوں تارکینِ وطن کو ہلاک کیا ہے۔
نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم نے 73 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی سیکیورٹی فورسز نے جدید اسلحے سے تارکینِ وطن کو نشانہ بنایا۔
ہیومن رائٹس واچ میں تارکینِ وطن اور مہاجرین پر تحقیق کرنے والی نادیہ ہردمان کا کہنا ہے کہ سعودی حکام سینکڑوں مہاجرین اور پناہ کی تلاش میں آنے والے تارکینِ وطن کو دور دراز سرحد پر ر قتل کر رہے ہیں۔اور یہ کارروائیاں دنیا کی نظروں سے چھپ کر کی جا رہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب کی سرحد پر تعینات فورسز کے اہل کار یہ جانتے ہیں یا ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جن پر فائرنگ کر رہے ہیں وہ غیر مسلح عام شہری ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی پیر کو سامنے آنے والی اس رپورٹ پر سعودی عرب کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اکثر افراد خراب معاشی حالات کے سبب ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں جب کہ حالیہ مہینوں میں شمالی ایتھوپیا میں مسلح تنازع کے سبب بھی شہری اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق مہاجرین کی بین الاقوامی تنظیم نے 2022 میں اعداد و شمار جاری کیے تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب میں لگ بھگ ساڑھے سات لاکھ ایتھوپین آباد ہیں جن میں سےتقریباً ساڑھے چار لاکھ افراد کسی دستاویز کے بغیر سرحد عبور کر کے سعودی عرب میں داخل ہوئے۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے مزید بتایا ہے کہ تارکینِ وطن کئی دہائیوں سے خلیج عدن کے راستے یمن میں داخل ہو رہے ہیں اور پھر وہ یمن سے سرحد عبور کر کے سعودی عرب میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ پانچ برس قبل استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں امریکہ میں مقیم صحافی جمال خشوگی کے مبینہ قتل کے بعد محمد بن سلمان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
امریکہ کے خفیہ اداروں کی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ جمال خشوگی کی گرفتاری یا قتل کے احکامات محمد بن سلمان نے خود دیے تھے۔
محمد بن سلمان ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
ہیومن راٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس کی حالیہ رپورٹ 42 افراد کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جن میں ایتھوپیا کے تارکینِ وطن بھی شامل ہیں۔ ان تارکینِ وطن نے مارچ 2022 سے رواں برس جون کے درمیان یمن اور سعودی عرب کی سرحد عبور کرنے کی کوشش کی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رپورٹ کی تیاری کے دوران لگ بھگ 350 ویڈیوز اور تصاویر کا جائزہ لیا گیا۔ یہ مواد سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا گیا تھا جب کہ مختلف ذرائع سے بھی کچھ مواد حاصل کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سرحدی علاقوں کی نشان دہی کے لیے سیٹلائیٹ کی مدد بھی لی گئی۔
انسانی حقوق کی تنظیم کو ایک تارک وطن نے بتایا کہ انہیں اس وقت نشانہ بنایا گیا جب 170 افراد کا ایک گروپ سرحد عبور کرنے کی کوشش کر ریا تھا۔ اس شخص کے مطابق وہ جانتا ہے کہ اس گروپ کے 90 افراد ہلاک ہو گئے تھے کیوں کہ کچھ لوگ بعد میں لاشیں اٹھانے آئے تھے۔
اسی طرح دیگر تارکینِ وطن نے بھی بتایا کہ زمین پر لاشیں ہی لاشیں بکھری ہوئی تھیں ، ان میں بچے بھی شامل تھے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب کے ساتھ واقع ملک یمن بھی 2014 سے شورش کا شکار ہے۔ حوثی باغی درالحکومت صنعا سمیت ملک کے شمالی علاقوں پر قابض ہیں۔ ان باغیوں کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کی حمایت یافتہ حکومت ہے جس کا کنٹرول ملک کے جنوبی علاقوں پر ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں حوثیوں پر بھی تارکیں وطن کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔