سعودی خواتین پہلی بار بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالیں گی

فائل فوٹو

سعودی عرب کے ایک نئے قانون کے تحت سعودی خواتین اس سال کے آخر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اہل ہوں گی۔

سعودی عرب میں اس ہفتے خواتین ووٹروں کی رجسٹریشن کھول دی گئی ہے اور ملک کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کو بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے رجسٹر کیا گیا ہے۔

سعودی عرب کے ایک نئے قانون کے تحت سعودی خواتین اس سال کے آخر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی مجاز ہوں گی، اس سلسلے میں خواتین ووٹروں کے اندارج کا عمل ابتدائی طور پر مکہ اور مدینہ جیسے بڑے شہروں سے شروع کیا گیا ہے۔

سعودی عرب کے سابق فرمانروا مرحوم شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود نے 2010ء میں بلدیاتی انتخابات میں خواتین کو ووٹ ڈالنے اور انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کرنے کا حق دینے کا فیصلہ کیا تھا اور 2014ء میں سعودی کابینہ نے شاہ عبداللہ کےحکم نامے کا باقاعدہ قانون بھی منظور کر لیا تھا جس کے تحت 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں خواتین کو بھی مردوں کے ساتھ بطور امیدوار حصہ لینے اور ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا ہے۔

اس قانون میں بلدیاتی انتخابات کے لیے کم از کم ووٹ ڈالنے کی عمر 21 سال سے کم کر کے 18 سال کر دی گئی ہے۔

سعودی گزٹ کے مطابق مکہ اور مدینہ میں ابتدائی طور پر ووٹرز رجسٹریشن ٹرن آوٹ کم رہا ہے جہاں دسمبر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی رجسٹریشن ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں پہلے کھولی گئی ہے، لیکن حکام نے توقع ظاہر کی ہے کہ اس میں بہتری آئے گی۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں خواتین کے حقوق محدود ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے کہ عورتیں ملک کی تاریخ میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات میں ناصرف ووٹ ڈال سکیں گی بلکہ امیدوار کی حیثیت سے حصہ بھی لیے سکیں گی۔

ووٹر کارڈ حاصل کرنے والی ملک کی پہلی دو خواتین جمال ال سعدی اور صفیناز ابو ال شامۃ نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ وہ حکومت کی نظر ثانی شدہ پالیسی سے فائدہ اٹھانے کے لیے پرجوش ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ووٹروں اور امیدواروں کی حیثیت سے بلدیاتی انتخابات میں سعودی خواتین کی شمولیت ہمارے لیے ایک خواب تھی۔

انھوں نے کہا کہ یہ اقدام سعودی خواتین کو فیصلہ سازی کے عمل میں اپنی رائے دینے کے قابل بنائے گا جبکہ بقول صفیناز خواتین کا انتخابات میں حصہ لینا ایک قومی ذمہ داری ہے۔

ملک بھر سے لگ بھگ 70 خواتین نے انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ کیا ہے اور 80 کے قریب خواتین نے عورتوں کی انتخابی مہم کے لیے منیجرز کی ذمہ داری اٹھانے کا منصوبہ بنایا ہے۔

بتایا گیا ہے بلدیاتی انتخابات میں 1,263 ووٹنگ مراکز کو خصوصی طور پر خواتین کے لیے وقف کیا جائے گا۔