سعودی عرب نے ملک میں مجرموں کو کوڑے مارنے کی سزا ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
سعودی سلطنت کی سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آئندہ کسی مجرم کو بھی کوڑے نہیں مارے جائیں گے۔ سعودی عرب میں بعض جرائم میں سو سے زائد کوڑے مارنے کی سزا بھی دی جاتی رہی ہے۔
البتہ، سعودی عرب میں کوڑے مارنے کی سزا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں وقتاً فوقتاً مذمت کرتی رہتی تھیں۔ ماہرین اس اقدام کو سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور اُن کے صاحبزادے ولی عہد محمد بن سلمان کی جدت پسندانہ پالیسیوں کی نفی قرار دیتے رہے ہیں۔
لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں اب بھی اختلاف رائے کرنے والوں کو موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔ جو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق سعودی سپریم کورٹ کی جانب سے سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد جسمانی سزاؤں کے خلاف بین الاقوامی حقوق کے اُصولوں پر عمل کرنا ہے۔
اس سے قبل سعودی عرب میں غیر ازدواجی تعلق ثابت ہونے سے لے کر قتل کے مجرموں کو بھی کوڑے مارنے کی سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔
سعودی سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اب جج ایسے جرائم میں ملوث افراد کو جرمانہ یا قید کی سزائیں سنائیں گے۔
یہ معاملہ اُس وقت بھی زیرِ بحث آیا تھا جب سعودی عرب کے معروف بلاگر رائف بداوی کو 2014 میں سوشل میڈیا پر توہین مذہب کے الزام میں 10 سال قید اور ایک ہزار کوڑے مارنے کی سزا دی گئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی سال اُنہیں یورپی پارلیمان کی جانب سے خصوصی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
سعودی حکومت نے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے، جب 2013 میں گرفتار کیے گئے انسانی حقوق کے کارکن عبداللہ الحامد کی گزشتہ دنوں فالج کے باعث جیل میں ہلاکت ہو گئی تھی۔
عبداللہ پر بادشاہت تسلیم نہ کرنے اور لوگوں کو بد امنی پر اُکسانے کے الزامات کے تحت 11 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ عبداللہ کی ہلاکت کے بعد سعودی حکومت پر تنقید کا سلسلہ جاری تھا۔
سعودی عرب کی حکومت کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات میں اضافہ اُس وقت ہوا جب 2017 میں سعودی بادشاہ نے محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کیا۔
دو سال قبل ترکی کے شہر استنبول کے سعودی سفارت خانے میں حکومتی پالیسیوں کے ناقد صحافی جمال خشوگی کے قتل کے بعد بھی سعودی حکومت پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔
امریکہ سمیت بعض یورپی ممالک نے محمد بن سلمان کو جمال خشوگی کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
محمد بن سلمان نے 2016 سے سعودی عرب میں معاشی اور سماجی اصلاحات کا آغاز کر رکھا ہے۔ جن میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے سمیت بعض دیگر اقدامات شامل ہیں۔
لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اختلاف رائے کرنے والوں کے ساتھ بدترین سلوک کے باعث اُن پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔