اس میں کوئی شک نہیں کہ صوفیانہ کلام کی مقبولیت میں ان گلوکاروں کا بھی بڑا اہم کردار ہے جنہوں نے دل کی گہرائیوں سے اسے گایا اور انگنت لوگوں تک اسے پہنچایا۔ صنم ماروی کا نام بھی انہی گلوکاروں میں شامل ہے
کراچی ... وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں راحت فتح علی خان سے جب یہ پوچھا گیا کہ پاکستان کو کن کن آوازوں پر ناز کرنا چاہئے؟۔۔تو انہوں نے سب سے پہلے جو نام لیا وہ صنم ماروی کا تھا۔ صنم کی سب سے بڑی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے گھریلو لڑکی ہونے کے باوجود، خود کو منوایا۔
سندھ اور پنجاب کے جتنے بھی بڑے اور نامور گلوکار ہیں ان کا کہنا ہے کہ جانے عارفانہ کلام میں کیا کشش ہے کہ اسے سن کر لوگ کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہ عارفانہ یا صوفیانہ کلام گانا بھی سب کے بس کی بات نہیں۔ پاکستان کی ایک اور مایہ ناز گلوکارہ عابدہ پروین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ عارفانہ کلام کے لئے شاید قدرت خصوصی طور پر آوازیں کو خود تراشتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صوفیانہ کلام کی مقبولیت میں ان گلوکاروں کا بھی بڑا اہم کردار ہے جنہوں نے دل کی گہرائیوں سے اسے گایا اور انگنت لوگوں تک اسے پہنچایا۔ صنم ماروی کا نام بھی انہی گلوکاروں میں شامل ہے۔
لاہور کے’رفیع پیرتھیٹر‘ کے زیر اہتمام شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، اگرچہ انہیں یہ فن اپنے والد فقیر غلام رسول سے ورثے میں ملا تھا، وہ صرف سات سال کی تھیں کہ گانے کے سارے اصرار و رموز سیکھ گئیں۔ لیکن، وہ صوفیانہ کلام میں عابدہ پروین، محمد یوسف اور پروین سلطانہ سے بھی بہت متاثر ہیں۔
ماروی ان خوش نصیب گلوکاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے استاد فتح علی خان سے کلاسیکی موسیقی سیکھی، جبکہ استاد نواز علی اور استاد مجید خان سارنگی نواز بھی ان کے استادوں میں شامل رہے۔
وہ انتہائی جذب، چاوٴ اور پختگی کے ساتھ شاہ حسین، بلھے شاہ، سچل سرمست، شاہ عبداللطیف بھٹائی، خواجہ غلام فرید اور سلطان باہو جیسے پائے کے صوفی شعراء کاصوفیانہ کلام گانے میں مہارت رکھتی ہیں۔ ان کی ایک انفرادی خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہیں مذکورہ شعراء کا کلام ازبر ہے۔
صنم ماروی انتہائی سادہ، گھریلو، مگر پرکشش شخصیت کی مالک ہیں۔ انہوں نے خیرپور ناتھن شاہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ لیکن، شادی کے بعد، انہیں سندھ سے پنجاب کی سرزمیں پر اپنا بسیرا بنانا پڑا۔
صنم ماروی کو پی ٹی وی نے تراشا ہے۔ ان کی پہلی پرفارمنس ثمینہ پیرزادہ نے اپنے ایک شو میں کرائی۔ اس کے بعد تو گویا ان کی شہرت کو پر لگ گئے۔ وہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی لائیو پرفارمنس دے چکی ہیں اور اس پرفارمنس کو اپنی سب سے بہترین پرفارمنس خیال کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی پذیزائی انہیں ساری زندگی یاد رہے گی حالانکہ وہ بھارت کے علاوہ مراکش، فرانس اور جاپان سمیت دیگر کئی ممالک میں پرفارم کر چکی ہیں۔
ان کے گائے ہوئے ڈراموں کے کئی ٹائٹل سانگز بھی ان کی مقبولیت میں اضافے کا باعث ہیں جبکہ میوزیکل پروگرام ’کوک اسٹوڈیو‘ تو انہیں نئی نسل کے دلوں میں گھر کرنے کا موقع بھی فراہم کرچکا ہے۔
صنم ماروی کی آواز میں گائے ہوئے صوفیانہ کلام کی فہرست بہت طویل ہے۔ مثلاً، ’میں تاں علی علی‘، ’ساون آئیو میگھ ملہار‘، ’اللہ ہُو اللہ‘، ’چھاپ تلک سب چھین لی‘، ’تیرے عشق نچایا کرکے تھیاں تھیاں‘، ’ہائے ربا نئیں او لگدا دل میرا‘، ’پرچن شال پنھوار ڈھولا‘، ’ماہی یار گھڑولی بھردی‘، ’پریتم مت پردیس پدھارو‘ ،’لمی جدائی‘،اور ’لال میری پت‘۔۔۔وغیرہ۔
سندھ اور پنجاب کے جتنے بھی بڑے اور نامور گلوکار ہیں ان کا کہنا ہے کہ جانے عارفانہ کلام میں کیا کشش ہے کہ اسے سن کر لوگ کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہ عارفانہ یا صوفیانہ کلام گانا بھی سب کے بس کی بات نہیں۔ پاکستان کی ایک اور مایہ ناز گلوکارہ عابدہ پروین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ عارفانہ کلام کے لئے شاید قدرت خصوصی طور پر آوازیں کو خود تراشتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صوفیانہ کلام کی مقبولیت میں ان گلوکاروں کا بھی بڑا اہم کردار ہے جنہوں نے دل کی گہرائیوں سے اسے گایا اور انگنت لوگوں تک اسے پہنچایا۔ صنم ماروی کا نام بھی انہی گلوکاروں میں شامل ہے۔
لاہور کے’رفیع پیرتھیٹر‘ کے زیر اہتمام شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، اگرچہ انہیں یہ فن اپنے والد فقیر غلام رسول سے ورثے میں ملا تھا، وہ صرف سات سال کی تھیں کہ گانے کے سارے اصرار و رموز سیکھ گئیں۔ لیکن، وہ صوفیانہ کلام میں عابدہ پروین، محمد یوسف اور پروین سلطانہ سے بھی بہت متاثر ہیں۔
ماروی ان خوش نصیب گلوکاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے استاد فتح علی خان سے کلاسیکی موسیقی سیکھی، جبکہ استاد نواز علی اور استاد مجید خان سارنگی نواز بھی ان کے استادوں میں شامل رہے۔
وہ انتہائی جذب، چاوٴ اور پختگی کے ساتھ شاہ حسین، بلھے شاہ، سچل سرمست، شاہ عبداللطیف بھٹائی، خواجہ غلام فرید اور سلطان باہو جیسے پائے کے صوفی شعراء کاصوفیانہ کلام گانے میں مہارت رکھتی ہیں۔ ان کی ایک انفرادی خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہیں مذکورہ شعراء کا کلام ازبر ہے۔
صنم ماروی انتہائی سادہ، گھریلو، مگر پرکشش شخصیت کی مالک ہیں۔ انہوں نے خیرپور ناتھن شاہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ لیکن، شادی کے بعد، انہیں سندھ سے پنجاب کی سرزمیں پر اپنا بسیرا بنانا پڑا۔
صنم ماروی کو پی ٹی وی نے تراشا ہے۔ ان کی پہلی پرفارمنس ثمینہ پیرزادہ نے اپنے ایک شو میں کرائی۔ اس کے بعد تو گویا ان کی شہرت کو پر لگ گئے۔ وہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی لائیو پرفارمنس دے چکی ہیں اور اس پرفارمنس کو اپنی سب سے بہترین پرفارمنس خیال کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی پذیزائی انہیں ساری زندگی یاد رہے گی حالانکہ وہ بھارت کے علاوہ مراکش، فرانس اور جاپان سمیت دیگر کئی ممالک میں پرفارم کر چکی ہیں۔
ان کے گائے ہوئے ڈراموں کے کئی ٹائٹل سانگز بھی ان کی مقبولیت میں اضافے کا باعث ہیں جبکہ میوزیکل پروگرام ’کوک اسٹوڈیو‘ تو انہیں نئی نسل کے دلوں میں گھر کرنے کا موقع بھی فراہم کرچکا ہے۔
صنم ماروی کی آواز میں گائے ہوئے صوفیانہ کلام کی فہرست بہت طویل ہے۔ مثلاً، ’میں تاں علی علی‘، ’ساون آئیو میگھ ملہار‘، ’اللہ ہُو اللہ‘، ’چھاپ تلک سب چھین لی‘، ’تیرے عشق نچایا کرکے تھیاں تھیاں‘، ’ہائے ربا نئیں او لگدا دل میرا‘، ’پرچن شال پنھوار ڈھولا‘، ’ماہی یار گھڑولی بھردی‘، ’پریتم مت پردیس پدھارو‘ ،’لمی جدائی‘،اور ’لال میری پت‘۔۔۔وغیرہ۔