Your browser doesn’t support HTML5
سمیع ابراہیم ایک عرصے تک جنگ گروپ سے منسلک رہے۔ دی نیوز اور جیو نیوز کے امریکہ میں نمائندے رہے۔ بعد ازاں 2011ء میں پاکستان واپس آئے اور یکے بعد دیگرے دنیا ٹی وی، چینل 24 اور اے آر وائی نیوز سے بطور تجزیہ کار منسلک رہے۔ آج کل بول نیوز کے ڈائریکٹر ہیں اور اپنا پروگرام بھی کرتے ہیں۔
بول ٹی وی کی آمد نے پاکستان میڈیا انڈسٹری میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ لیکن پھر اس کے خلاف اسکینڈل بھی ویسا ہی تہلکہ خیز ثابت ہوا۔ اب اس کے مالک شعیب شیخ جیل میں ہیں، چینل کی تنخواہیں مہینوں کی تاخیر کا شکار ہیں اور آئے دن کارکن نکالے جا رہے ہیں۔
سمیع ابراہیم کو بول میں زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ وہ چینل کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے میں نے براہِ راست تنقید کرنے کے بجائے ان سے پوچھا، کوئی چینل کارکنوں کو کیوں فارغ کرتا ہے؟ مالی مشکلات ہوتی ہیں یا غیر تربیت یافتہ کارکن توقعات پر پورے نہیں اترتے؟
سمیع ابراہیم نے کہا کہ پاکستان میں چینلوں کی تعداد جس طرح بڑھی ہے، اس کے حساب سے کارکنوں کی تربیت پر توجہ نہیں دی گئی۔ ٹیلی ویژن کے پیشہ ور اور تربیت یافتہ افراد ہمیں مناسب تعداد میں دستیاب نہیں ہیں۔ یہ بات درست ہے۔ لیکن ملازمین کو نکالے جانے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ریگولر ملازمت کا تصور نہیں ہے۔ کانٹریکٹ پر لوگوں کو رکھا جاتا ہے۔ جو لوگ کسی ادارے میں زیادہ عرصہ کام کرلیتے ہیں، ان کی تنخواہ بڑھانا پڑتی ہے۔ مالکان ان کی جگہ نئے لوگوں کو بھرتی کرلیتے ہیں۔ چاہے وہ تربیت یافتہ نہ ہوں لیکن چونکہ انھیں کم تنخواہ دینا پڑتی ہے، اس لیے ملازم رکھ لیے جاتے ہیں۔
سمیع کے بقول مالکان اس بات سے بھی خوف زدہ رہتے ہیں کہ ملازمین زیادہ عرصہ کام کریں گے تو کوئی گروپ یا یونین بنا سکتے ہیں اور اپنے مطالبات کے لیے انتظامیہ پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے ملازمین کو ملازمتوں سے نکالا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں صحافت کے معیار پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا میں ملازمت کے دوران تربیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ابتدا میں جیو نے اپنے تمام کارکنوں کو تربیت فراہم کی تھی۔ ایکسپریس نے بھی اسی طرح آغاز کیا تھا۔ لیکن جب وہ کارکن دوسرے اداروں میں گئے تو شاید مالکان نے سوچا کہ ہم کارکنوں کو تربیت فراہم کیوں کریں؟
میں نے سوال کیا کہ پرانے چینل کارکنوں کو نکال رہے ہیں اور تنخواہیں نہیں دے پا رہے۔ پھر یہ نئے چینل کنویں میں پیسہ پھینکنے کے لیے کیوں چلے آ رہے ہیں؟
سمیع ابراہیم نے کہا کہ دو چیزیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پرانے چینل کہتے ہیں کہ وہ مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔ لیکن اگر ہم ان کی آمدنی اور اخراجات کو دیکھیں تو ان کا مؤقف درست نہیں لگتا۔ پاکستان میں میڈیا انتہائی منافع بخش کاروبار ہے۔ نئے چینل بڑے بزنس مین لا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ عام خیال ہے کہ جو لوگ میڈیا میں ہیں، انھیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا، انھیں کوئی پکڑ نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ ان کے جو دوسرے کاروبار ہیں، ان میں کچھ فائدہ حاصل ہوجاتا ہے۔
سمیع ابراہیم کہتے ہیں کہ کچھ بزنس مین ایسے ہیں جنھوں نے دوسرے کاروبار میں کافی مال بنایا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دو تین یا چار سال میں کچھ رقم گنوا دیں لیکن اس کے بدلے میں ایک خاص نقطہ نظر یا کوئی سیاسی رائے جنم دینے میں کردار ادا کرسکیں تو یہ خسارے کا سودا نہیں ہے۔ یہ صرف منافع کمانے کی کوشش نہیں بلکہ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے، سیاسی اہمیت حاصل کرنے کے لیے اور دوسرے کاروباروں کو تحفظ دینے کے لیے بھی سرمایہ لگایا جارہا ہے۔
میں نے کہا کہ آج کل ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ڈیپ اسٹیٹ کے میڈیا پر اثر انداز ہونے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کس قدر متحرک ہے؟ پی ایف یو جے تو سیدھا الزام لگا رہی ہے کہ میڈیا کو سینسرشپ کا سامنا ہے۔
سمیع ابراہیم نے جواب دیا کہ اگر ترقی یافتہ ملک اس سے نہیں بچ سکے تو پاکستان کے بارے میں کیا بات کریں۔ اگر میں دیانت داری سے تجزیہ کروں تو پاکستان میں صرف ڈیپ اسٹیٹ یا اسٹیبلشمنٹ متحرک نہیں۔ یہاں ترقی یافتہ ملکوں کی طرح قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ پیسے کی آمد و رفت پر اس طرح کنٹرول نہیں ہے۔ اس لیے بہت سے حلقے میڈیا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ بھی متحرک رہتی ہے۔ لیکن پاکستان کے ہمسایہ ملک بھی پیسہ دے کر اثر ڈالنا چاہتے ہیں۔ کالعدم تنظیمیں دھمکاتی ہیں، فنانشل لابیز اپنی مطلب کی رائے سازی چاہتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں پیسے اور تعلقات کی بنیاد پر توجہ چاہتی ہیں۔ میڈیا گروپس کے اپنے مفادات بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں پاکستان کے میڈیا میں بہت سے نقطہ ہائے نظر کی جھلک نظر آتی ہے۔
سمیع ابراہیم نے بتایا کہ بلوچستان میں قوم پرستوں کے بارے میں کچھ نہیں چھاپ سکتے۔ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں طالبان کے حامی جنگجوؤں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ جنوبی پنجاب میں کالعدم تنظیموں سے متعلق گفتگو نہیں کرسکتے۔ کراچی میں ابھی تک کچھ گروپس کے بارے میں بات نہیں کی جاسکتی۔ بلاشبہ اسٹیبلشمنٹ بھی اسٹیک ہولڈر ہے۔ جب اسے کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے، جسے وہ پسند نہیں کرتی، وہ بھی اسے دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ ہمارا میڈیا ہر طرف سے دباؤ کا شکار ہے۔