ایک ایسے وقت میں جب ماسکو بحر ہند کے علاقے میں اپنا عمل دخل بڑھانے اور ایشیا کے چھوٹے ملکوں کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کی کوشش کرر ہا ہے ،اس نے پچاس سال میں پہلی بار اس ماہ کے اوائل میں بنگلہ دیش میں اپنے جنگی جہاز لنگر انداز کیے ہیں اور میانمار کے ساتھ اپنی پہلی مشترکہ مشقوں کا انعقاد کیا ہے ۔
روسی وزارت دفاع کے مطابق روس نے گزشتہ ہفتے بھارت کے ساتھ بھی دو روزہ بحری مشقیں کی تھیں تاکہ اس کے ساتھ بحری تعاون بڑھایا جا سکے ۔
واشنگٹن کے ولسن سنٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ اگرچہ بھارت کے لیے اپنے قریبی پانیوں میں غیر ملکی فوجوں کی موجودگی کا خیر مقدم مشکل دکھائی دیتا ہے تاہم بھارت روس کی بحری طاقت کو اس تشویش سےنہیں دیکھتا جیسی کہ وہ چین کی بحری طاقت کو سمجھتا ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ بھارت سمجھتا ہے کہ روس کی موجودگی علاقے میں چینی بحری طاقت کے لیے توازن کا کام کر سکتی ہے اور چین سے لاحق نئی دہلی کے خطرے کو کم کرسکتی ہے ۔
SEE ALSO: مالدیپ: چین کے حامی صدارتی امیدوار کامیاب، بھارت کو کیا چیلنج در پیش؟تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اسٹریٹیجک اہمیت کے پانیوں میں چین کی توسیع کے مقابلے کے لیے امریکہ جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ تعلقات گہرے کرنے کے باوجود اپنے پرانے اتحادی اور دفاعی ساز و سامان کے اپنے سب سے بڑے سپلائر ، روس کی جانب سے اپنے بحری مضافات میں موجودگی بڑھانے کا مخالف نہیں ہے۔
اپنے مغربی شراکت داروں کے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے نئی دہلی نے ماسکو کے ساتھ اپنے کئی عشروں پرانے تعلقات برقرار رکھے ہیں اور یوکرین کی جنگ میں ایک غیر جانبدار موقف اپنایا ہے ۔
SEE ALSO: جی20 اجلاس: عالمی رہنماؤں کا مختلف امور پر اتفاق، یوکرین جنگ پر روس کی مذمت سے گریزملٹی پولر گلوبل آرڈر
بھارت کے انٹر نیشنل کرائسس گروپ کے سینئر تجزیہ کار پروین ڈونتھی نے وی او اے کو بتایا کہ بھارت کی خواہش رہی ہے کہ روس انڈو پیسیفک علاقے میں مزید فعال کردار ادا کرے کیوں کہ یہ نئی دہلی کے ایک بڑے اسٹرٹیجک مقصد کے لیے مناسب ہے جسے وہ ملٹی پولر گلوبل آرڈر کہتا ہے ۔
نئی دہلی کا خیال ہے کہ ایک ملٹی پولر ایشیا، ملٹی پولر دنیا کی تعمیر کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اور اس نے اب تک اس اسٹریٹجی پر عمل کیا ہے ، مثال کے طور پر یوکرین کی جنگ کے حوالے سے۔
منی پال اکیڈیمی اٖ ہائر ایجو کیشن کے جیو پولیٹکس اور انٹر نیشنل ریلیشنز کے اسسٹنٹ پروفیسر سنکلپ گرجر کہہتے ہیں کہ روس مغرب پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ اگرچہ تم ہمیں الگ تھلگ کرنے کی کوشش کررہے ہو تاہم ہمارے پاس گلوبل ساؤتھ اور ایشیا اور افریقہ میں حمائتی موجود ہیں ۔ تو یہ ایک سفارتی پیغام ہے جو وہ دے رہے ہیں۔
تاہم کوگل مین کہتے ہیں کہ بحر ہند میں روسی موجودگی سے بھارت کے لیے ایک اسٹریٹیجک مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ماسکو یوکرین پر اپنے حملے کے بعد سے اس کے ایک بڑے حریف چین کے قریب ہو رہا ہے ۔
اب تک تو ایسا لگتا ہے کہ ماسکو بحر ہند کے مشرقی حصے میں موجود رہنا چاہتا ہے تاہم تشویش اس لیے پیدا ہورہی ہے کہ چین اور روس کا بحری تعاون گہرا ہو رہا ہے۔ مثال کے طورپر مغربی پیسیفک میں دونوں ملک مشترکہ مشقیں کر رہے ہیں ۔ اگر اس قسم کا تعاون بحر ہند تک پھیل گیا تو یہ موجودگی بھارت کےلیے ایک چیلنج ہو گی ۔
SEE ALSO: کیا جی ٹوئنٹی اجلاس سے قبل بھارت چین تعلقات میں بہتری آئے گی؟روس کےمیانمار اور بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات
روس کی وزارت دفاع نے سات سے 9 نومبر تک میانمار کے ساتھ منعقد کی گئی بحری مشقوں کو روس اور میانمار کے درمیان جدید تاریخ کی پہلی بحری مشق قرار دیا۔ ان مشقوں میں میانمار کی نیوی کے ایک فریگیٹ اور ایک چھوٹے جنگی جہاز کے ساتھ روس کے پیسیفک فلیٹ کے دو اینٹی سب میرین بحری جہازوں نے حصہ لیا ۔
میانمار کے ساتھ مشقوں کے بعد وہی روسی جنگی بحری جہاز خلیج بنگال میں بنگلہ دیش کی چٹاگانگ بندرگاہ پر لنگر انداز ہوئے ، یہ پچاس سال میں ایسا پہلا دورہ تھا۔ ڈھاکہ میں روسی سفارت خانے نے اسے روس اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔
روس اور ڈھاکہ کے درمیان روائتی طور پر گہرے تعلقات اور اب جب بنگلہ دیش کی حکومت پر اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے امریکہ کی جانب سے دباؤ ہے، وہ ماسکو کے قریب تر ہو سکتا ہے ۔ روس بنگلہ دیش کا پہلا جوہری پاور پلانٹ تعمیر کر رہا ہے۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش کا پہلا جوہری پلانٹ ڈیڑھ کروڑ گھروں کو بجلی فراہم کرے گابنگلہ دیش کے زیر تعمیر جوہری پلانٹ کا نام روپ پور رکھا گیا ہے جس کے لیے روس نے فنڈز مہیا کیے ہیں۔ اس پلانٹ کو روس کی ریاستی جوہری توانائی کی کارپوریشن تعمیر کر رہی ہے۔
بنگلہ دیش نے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے روس سے 11.38 بلین ڈالر کا قرض لیا ہے جو سن 2027 کے بعد دو عشروں میں واپس کیا جائے گا۔
اس پلانٹ کے لیےروسی یورینیم کی پہلی کھیپ کو باقاعدہ طور پر ایک ویڈیو لنک کے ذریعے ہونے والی تقریب میں بنگلہ دیش کے حوالے کیا گیا تھا۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے اس تقریب میں شرکت کی تھی ۔