روس نے رواں ہفتے عراق میں کرد علاقے میں اسلحہ بھیجا ہے جو داعش کے خلاف برسرپیکار کرد فورسز 'پیش مرگہ' استعمال کریں گی۔
یہ بات روسی اور کرد ذرائع کے حوالے سے بتائی گئی ہے۔
ارییل میں روسی قونصل خانے کے اتاشی نے روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'آر آئی اے نووستی' کو بتایا کہ پیر کو حوالے کیے جانے والے اسلحے میں پانچ خود کار طیارہ شکن توپیں اور 20,000 گولے شامل ہیں۔
یہ ہتھیار عراق میں روس کی سفیر الیا مور گنووف کی کرد صدر مسعود بارزانی سے ملاقات کے ایک دن بعد دیے گئے جس میں باہمی قریبی تعلقات اور پیش مرگہ جنگجوؤں کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی پر بات ہوئی۔
کرد ستان کے ایوان صدر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق روسی سفیر نے کردستان کے علاقے کے لیے اپنے ملک کی طرف سے حمایت کا اعادہ کیا اور روس کی طرف سے دہشت گردی کی جنگ میں پیش مرگہ کو فوجی مدد فراہم کرنے پر رضا مندی کا اظہار کیا۔
مغربی ممالک سے قریبی تعلقات اور داعش کے خلاف لڑائی میں امریکہ کا ایک موثر اتحادی ہونے کے ناطے سے عراقی کردستان کو امریکہ اور جرمنی سمیت کئی ممالک سے فوجی مدد ملی ہے۔
کردوں کی طرف سے بھاری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کی بغداد اس خدشہ کی بنا پر مخالفت کرتا ہے کہ کرد عراق سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
کردستان کی فضائی حدود پر کنٹرول کے باعث بغداد نے اس علاقے میں براہ راست کئی بار بھیجی جانے والی اسلحے کی کھیپ کو روک دیا۔ اس کا موقف ہے کہ یہ امداد مرکزی حکومت کے ذریعے تقسیم ہونی چاہیئے جبکہ کردوں کو شکایت ہے کہ بغداد کے ذریعے بھیجی جانے والی کھیپ بہت ہی سست اور غیر فعال ہے۔
روس کے لیے کردستان کے نمائندے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بغداد نے پیش مرگہ کو روسی اسلحے کی فراہمی کی منطوری دی ہے۔
کرد عہدیداروں کے مطابق یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ کردوں نے روس سے اسلحہ حاصل کیا ہوا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ شام اور عراق کے تنازع اور داعش کے منظر عام پر آنے کے بعد خطے میں روس کی مداخلت بڑھی ہے۔