طالبان سے مذاکرات اگلے ہفتے مگر اہم پیش رفت کی امید نہیں، ماسکو

مارچ میں ماسکو میں افغانستان پر اجلاس کے بعد، سہیل شاہین اخباری کانفرنس کو تفصیل بتا رہے ہیں۔ 19 مارچ 2021ء (فائل فوٹو)

روسی صدر ولادی میر پوٹن کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان نے جمعے کے روز کہا ہے کہ انہیں آئندہ ہفتے ماسکو میں طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں کسی اہم پیش رفت کی امید نہیں ہے، کیونکہ ان کے بقول 'ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک طویل عمل ہے'۔

خبر رساں ادارے رائٹرز نے روسی خبر رساں اداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ روس کے عہدے دار ضمیر کابلوف نے کہا ہے کہ طالبان نے اگلے بدھ سے شروع ہونے والی اس بات چیت میں شرکت کی تصدیق کی ہے۔ تاہم، ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ وفد میں کون سے ارکان شامل ہوں گے۔

'آر آئی اے نیوز ایجنسی' نے کابلوف کے حوالے سے بتایا ہے کہ ''ہمیں کسی پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک طویل عمل ہے''۔

کابلوف نے مزید کہا کہ اجلاس سے ایک روز قبل، روس، امریکہ، چین اور پاکستان کے عہدے دار ماسکو میں علیحدہ سے ایک ملاقات کریں گے، تاکہ افغانستان میں بدلتی ہوئی صورت حال کے بارے میں کوئی متحدہ لائحہ عمل اختیار کیا جا سکے۔

روس نے مارچ میں افغانستان کے معاملے پر بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی تھی جس میں روس، امریکہ، چین اور پاکستان شریک ہوئے تھے، جس میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا تھا، جس میں لڑائی میں شامل تمام فریقوں سے کہا گیا تھا کہ وہ تشدد کی کارروائیاں بند کر کے امن سمجھوتا طے کریں۔

اس وقت سے اب تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 20 سالہ جنگ ختم کی اور افواج کا انخلا کیا، طالبان اقتدار پر قابض ہوئے اور گزشتہ حکومت معطل ہوئی۔

روس کو اب یہ فکر ہے کہ کہیں اسلام پسند عسکریت پسندی کا اثر اس وسیع تر خطے میں نہ پھیل جائے، جس میں سابق سویت یونین کی وسط ایشیائی جمہوری ریاستیں واقع ہیں، جنھیں روس اپنے دفاع کی جنوبی سرحد خیال کرتا ہے۔

طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد روس نے تاجکستان میں مشترکہ عسکری مشقیں کی ہیں۔

ادھر، طالبان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد ترکی کے سرکاری دورے پر ہے جہاں اس نے ترک عہدے داروں سے باہمی امور اور افغانستان کے مستقبل کے بارے میں تعاون کے لئے بات چیت کی ہے۔

انقرہ سے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس وفد کی قیادت طالبان کے نامزد کردہ وزیر خارجہ امیر خان متقی کر رہے ہیں، جنھوں نے اپنے ترک ہم منصب مولود کاوش اوگلو سے بات چیت کی ہے۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے طالبان، امریکہ اور یورپی یونین کے 10 ملکی وفد سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کر چکے ہیں۔

بین الاقوامی برادری نے اقتدار پر قبضے کے بعد طالبان کی طرف سے کئے گئے چند اقدامات کی مذمت کی ہے۔

خبر رساں اداروں اور مقامی ذرائع کے مطابق طالبان نے سرعام پھانسیوں اور دیگر ظالمانہ عمل کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیا ہے۔ انھوں نے ملک کے ایک صوبے کے علاوہ تمام مقامات پر طالبات کو پرائمری اسکول تک تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی ہے جب کہ ان کے لئے ہائی اسکول کی تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ خواتین کو کام کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔

طالبان کی جانب سے قائم کردہ حکومت میں صرف طالبان شخصیات شامل ہیں۔ ان میں وہ عناصر بھی موجود ہیں، جو اقوام متحدہ کی ممنوعہ فہرست میں شامل ہیں۔

[اس خبر میں درج معلومات ایسو سی ایٹڈ پریس، رائٹرز اور آر آئی اے نیوز ایجنسی سے لی گئی ہے]