روس نے افغانستان میں امریکی فوجیوں میں ممکنہ تخفیف کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ درست سمت میں ایک اچھا اقدام ہے۔ تاہم روس نے اس بارے میں امریکی حکومت کی سنجیدگی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا نے ماسکو میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی قیادت نے افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد میں 50 فیصد کمی کا اعلان کیا ہے اور اُن کے خیال میں اس سے افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں مدد مل سکتی ہے۔
امریکہ میں گزشتہ ہفتے شائع ہونے والی میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے فوجی کمانڈروں کو زبانی احکاما ت دئے ہیں کہ وہ افغانستان میں موجود 14,000 کے لگ بھگ امریکی فوجیوں میں سے نصف یعنی 7,000 کو واپس بلا لیں۔ رپورٹوں کے مطابق فوجیوں کی واپسی اگلے ماہ کے آغاز میں شروع ہو گی۔ تاہم وائٹ ہاؤس یا پینٹاگون نے اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان زخارووا کا کہنا ہے کہ روسی حکومت فوجیوں کی واپسی کے بارے میں امریکی حکومت کی جانب سے وضاحت کی منتظر ہے اور چونکہ ابھی کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے لہذا اس پر فی الوقت کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔
زخارووا نے کہا کہ روس نے ہمیشہ افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے سیاسی اور سفارتی ذرائع سے بات چیت کے ذریعے حل پر زور دیا ہے اور امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو مسلسل باور کرایا ہے کہ افغان تنازعے کے فوجی حل کی تلاش ایک سنگین غلطی ہو گی۔
زخارووا نے گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن مزاکرات کی تعریف کی۔ ان مزاکرات میں پاکستان، سعودی عرب اور میزبان ملک متحدہ عرب امارات کے نمائیندے بھی شریک ہوئے تھے۔
ان مزاکرات کے دوران طالبان نمائیندوں نے مسلسل مطالبہ کیا تھا کہ امریکہ اور اُس کے اتحادی افغانستان سے اپنے فوجیوں کی واپسی کی حتمی تاریخ اور ٹائم ٹیبل کا اعلان کریں۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے فوجیوں میں تخفیف کا عندیہ ممکنہ طور پر طالبان کے ساتھ ہونے والے ان مزاکرات کےنتیجے میں سامنے آیا ہے۔ پاکستان کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ان مزاکرات کا انتظام اُس نے امریکہ کی درخواست پر کیا تھا تاکہ افغانستان میں جاری خانہ جنگی کوختم کرنے میں مدد فراہم کی جا سکے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آج ماسکو میں اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کر کے ابوظہبی میں ہونے والے ان مزاکرات میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ شاہ محمود قریشی نے روسی دورے سے پہلے افغانستان، ایران اور چین کا بھی دورہ کیا تھا۔