نیٹو نے جمعے کے دِن الزام لگایا کہ روس یوکرین کے تنازع میں کشیدگی بڑھانے پہ تلا ہوا ہے، جس سے قبل یہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ گذشتہ رات روسی افواج کے توپ خانے کا ایک دستہ سرحد پار سے یوکرین میں داخل ہو چکا ہے، جہاں روس نواز باغی سرکاری افواج کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہیں۔
حکومتِ روس نے اِس بات کی تردید کی ہے کہ اُس کے فوجی یوکرین میں داخل ہوئے ہیں۔ تاہم، میڈیا اطلاعات نے روس اور مغرب کے درمیان تناؤ بھڑکنے کی خبریں دی ہیں، جب کہ دونوں پہلے ہی ایک دوسرے پر اہم نوعیت کی معاشی پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔
نیٹو کی خاتون ترجمان، اونا لنگیسکو کے بقول، ’اگر اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے تو اِس کے شواہد مل جائیں گے کہ روس جو کہتا ہے، کرتا اُس کے بالکل برعکس ہے‘۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ، تنازع میں روس کشیدگی میں اضافہ کرتا رہا ہے، گرچہ وہ عدم کشیدگی پر زور دیتا آیا ہے۔
برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس میں، برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ نے کہا ہے کہ اُنھیں اس بات پر حیرت نہیں ہوئی کہ روسی افواج سرحد پار کرنے کے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہیں۔
اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ اگر مشرقی یوکرین میں روسی فوجی اہل کار یا بکتر بند گاڑیاں موجود ہیں تو اُنھیں وہاں سے فوری طور پر ہٹایا جائے، یا پھر سنگین نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔
برطانیہ کے اخبار، ’گارڈیئن‘ نے جمعے کے روز کہا کہ اُس کے نامہ نگاروں نے متعدد بکتر بند گاڑیوں کو یوکرین کی سرحد پار کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
یوکرین کے حکام نے بتایا ہے کہ رات کے وقت کچھ بکتربند گاڑیاں روس کی طرف سے یوکرین میں داخل ہوئیں اور کہ وہ اِس معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں۔
یوکرینی فوج کے ایک ترجمان، اولیکسی دِمترا شنوسکی نے کہا ہے کہ یوکرین کے علاقے میں اس طرح کی دراندازی، عملی طور پر، روز کا معمول بن چکا ہے، جس کا مقصد (یوکرین میں) اشتعال انگیزی پیدا کرنا ہے۔
روسی فوجی دراندازی کے تازہ الزامات کے باوجود، مشرقی یوکرین کے میدان جنگ کی صورت حال کے لحاظ سے دیکھا جائے تو حکومتی افواج کا پلہ بھاری ہے۔
وہ تقریباً روزانہ علیحدگی پسندوں سے اپنا علاقہ خالی کراتے جارہے ہیں، جب کہ دونیستک اور لہانسک میں باغیوں کے مضبوط ٹھکانوں کو توپ خانے سے ہدف بنا رہے ہیں۔ اِن کارروائیوں میں شہری ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔
دریں اثنا، گذشتہ سات دِنوں کے دوران، یوں لگتا ہے کہ باغی کنٹرول کھو رہے ہیں، ایسے جب اُن کے تین اعلیٰ علیحدگی پسند اہل کاروں کو اُن کے عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔
اُن میں سے ایک، اِگور سٹریلکوف ہیں، جو ماسکو کے مکین ہیں۔ وہ روس نواز حلقوں میں اونچے اُڑ رہے تھے، اس حد تک کہ روس نے اُن کی تصاویر سے آویزاں ٹی شرٹ اور مَگے جاری کیے تھے۔