بشار الاسد سے حکومت چھوڑنے کا مطالبہ نہیں کیا، روس

روس وزیرِ خارجہ نے منگل کو ماسکو میں سالانہ پریس کانفرنس میں روسی خارجہ پالیسی کی وضاحت کی

روسی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ صدر اسد کی حمایت میں روس کی فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں شام میں "پانسہ پلٹنے" میں مدد ملی ہے۔

روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے واضح کیا ہے کہ ان کے ملک نے شام کے صدر بشار الاسد کو نہ تو حکومت چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے اور نہ ہی انہیں سیاسی پناہ دینے کی کوئی پیش کش کی ہے۔

منگل کو ماسکو میں روس کی خارجہ پالیسی سے متعلق سالانہ پریس کانفرنس کے دوران اس سوال پر کہ کیا روس نے صدر بشار الاسد کو پناہ دینے کے بدلے ان سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا ہے، سرگئی لاوروف نے کہا کہ ایسی تمام اطلاعات غلط ہیں۔

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں عندیہ دیا تھا کہ شام کے صدر بشار الاسد کو پناہ دینا روس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں جس کے بعد ذرائع ابلاغ میں یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ گئی تھیں کہ روس نے صدر اسد سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

روس اسد حکومت کا اہم اتحادی ہے جو شام میں گزشتہ پانچ برسوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر عالمی فورمز پر شامی حکومت کے خلاف کسی سخت اقدام کی مزاحمت کرتا رہا ہے۔

روسی فضائیہ گزشتہ چار ماہ سے شام میں صدر اسد کے خلاف لڑنے والے باغیوں پر بمباری کر رہی ہے جس کے نتیجے میں باغیوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

گوکہ روسی حکومت کا دعویٰ ہے کہ شام میں اس کی فضائی کارروائیاں داعش سمیت دیگر انتہاپسندوں کے خلاف ہیں لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا موقف ہے کہ روسی فضائی حملوں کا زیادہ تر ہدف شامی باغی اور عام شہری بن رہے ہیں۔

منگل کو اپنی پریس کانفرنس کے دوران روسی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ صدر اسد کی حمایت میں روس کی فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں شام میں "پانسہ پلٹنے" میں مدد ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شام میں روس کی فوجی مداخلت کےبعد وہاں جاری خانہ جنگی کی درست تصویر دنیا کے سامنے آئی ہے اور اس کے نتیجے میں شام میں "دہشت گردوں" کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔

صدر بشار الاسد کی حکومت اور ان کے اتحادی شامی باغیوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں جنہیں امریکہ، سعودی عرب، ترکی اور دیگر علاقائی اور مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔

روسی وزیرِ خارجہ نے یہ پالیسی بیان ایسے وقت دیا ہے جب اقوامِ متحدہ کی ثالثی میں شام کی حکومت اور حزبِ اختلاف کے نمائندوں کے درمیان براہِ راست بات چیت شروع ہونےو الی ہے۔

مجوزہ امن مذاکرات کا آغاز پیر کو جنیوا میں ہونا تھا لیکن حزبِ اختلاف کی نمائندگی کے معاملے پر اختلافات کے باعث اب بات چیت جمعے سے شروع ہونے کی توقع ہے۔

اپنی پریس کانفرنس میں روسی وزیرِ خارجہ نے مذاکرات کی کامیابی پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امن مذاکرات کا اس وقت تک نتیجہ نہیں نکلے گا جب تک اس میں شام کی کرد اقلیت کے نمائندوں کو شریک نہیں کیا جاتا۔

انہوں نے شامی کردوں کی نمائندہ جماعت کو بات چیت میں شرکت کی دعوت نہ دینے کو ایک "غلطی اور ناانصافی" قرار دیا۔

سرگئی لاوروف نے بعض فریقوں کی جانب سے شامی صدر بشار الاسد کی اقتدار سے رخصتی کے مطالبے کو بات چیت میں شرکت یا اس کی کامیابی سے مشروط کرنے کے بیانات کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

روسی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرنا چاہتا ہے جو یوکرین تنازع کے باعث خاصے خراب ہوچکے ہیں۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ روس کرائمیا کے معاملے پر کوئی بات چیت نہیں کرے گا جو ان کے بقول روس کا حصہ ہے جسے یوکرین کو واپس دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔