روس نے بدھ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی طرف سے پیش کردہ اس مجوزہ بیان کو روک دیا ہے جس میں شمالی کوریا کی طرف سے حال ہی میں کیے جانے والے میزائل تجربہ کی مذمت کی گئی۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ شمالی کوریا کی بیلسٹک میزائل کی غیر قانونی سرگرمیاں جوہری ہتھیاروں کی ترسیل کی طرف لے کر جا رہی ہیں اور "یہ خطے اور خطے سے باہر کشیدگی میں اضافہ کا باعث بن رہی ہیں۔"
اس بیان میں سلامتی کونسل کی طرف سے یہ مطالبہ بھی کیا جانا شامل تھا کہ شمالی کوریا "فوری طور پر سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی منافی مزید اقدامات کو روک دے اور ان قراردادوں کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔"
اس مجوزہ بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سلامتی کونسل کے ارکان کو اس بات پر تشویش ہے کہ پیانگ یانگ اپنے وسائل کو میزائل اور بم بنانے میں استعمال کر رہا ہے جبکہ اس ملک کے شہریوں کی "بے شمار ضروریات ہیں جو پوری نہیں ہوئی ہیں۔"
یہ واضح نہیں کہ روس نے اس بیان کو کیوں روک دیا جو کہ فروری میں سلامتی کونسل کے اس بیان کی طرح ہی ہے جس کی منظوری روس نے دی تھی جس میں (شمالی کوریا کی طرف سے ) دیگر میزائل تجربات کی مذمت کی گئی تھی۔
تاہم سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ماسکو کو تازہ ترین بیان میں اس بات پر اعتراض تھا کہ جب شمالی کوریا کے مسئلے کے سفارتی حل کی بات کی جا رہی ہے تو (مسودہ سے) "مذاکرات کے ذریعے" کے الفاظ کو کیوں حذف کیا گیا۔
امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن آئندہ ہفتے شمالی کوریا سے متعلق ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس سلامتی کونسل کے ارکان کو بریفنگ دیں گے۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے بدھ کو شمالی کوریا کو متنبہ کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ " لڑائی مول نا لے"۔