دہلی ہائی کورٹ سے فیس بک پر روہنگیا مخالف مواد روکنے کی درخواست

بھارت میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں نے نئی دہلی میں ایک احتجاج کے دوران پلے کارڈ اٹھا رکھے ہیں جس میں میانمار میں نسلی روہنگیا کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے،فائل فوٹو

بھارت میں دو روہنگیا پناہ گزینوں نے دہلی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں فیس بک پر نفرت انگیز روہنگیا مخالف مواد کی اشاعت روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔

روہنگیا کمیوٹنی کے ارکان کا کہنا ہے کہ بھارت کے سوشل میڈیا صارفین انہیں دہشت گرد، جہادی، غیرقانونی تارکین وطن اور دیگر توہین آمیز القابات سے نوازتے ہیں اور انہیں ملک سے بے دخل کرنے کے مطالبات کرتے ہیں۔

یہ پٹیشن گزشتہ ہفتے منظر عام پر آئی تھی جس میں بھارت کے ریگولیٹرز سے فیس بک کی نگرانی کرنے اورایسے نفرت انگیز اور نقصان دہ مواد ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس کا رخ روہنگیا کمیوٹنی کی طرف ہوتا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ فیس بک کی دستاویزات اور بیرونی رپورٹس سے بارہا یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیس بک کے پلیٹ فارم پر روہنگیا کمیونٹی کے بارے میں غلط معلومات، جعلی خبروں، نفرت انگیز اور سیاسی تفرقہ انگیز مواد سے بھارت کے اندر اور بیرون ملک ان کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

جموں میں 5 اپریل 2021 میں روہنگیا پناہ گزینوں کی ایک بستی کو ہندو انتہا پسندوں نے جلا کر راکھ کر دیا تھا۔

گزشتہ منگل کو کیس کی سماعت کے موقع پر روہنگیا درخواست گزاروں کے وکیل گونسالوس نے کہا کہ فیس بک نے اپنے کاروباری مفاد کے لیے پلیٹ فارم کے الگورتھم کا اس انداز میں استعمال کیا جس سے نفرت انگیز مواد کو پھیلنے کا موقع ملا۔

فیس بک کے وکیل اروند داتار نے روہنگیا درخواست گزاروں کی اپیل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فیس بک پہلے ہی نفرت آمیز مواد کو روکنے کے لیے وفاقی حکومت کی مشاورت سے کافی کام کر رہی ہے اور جن توہین آمیر پوسٹوں کا ذکر کیا گیا ہے، انہیں ہٹایا جا چکا ہے۔

اکثریتی بودھ عقیدے کے ملک میانمار میں تشدد اور ظلم و ستم سے بچنے کے لیے لاکھوں روہنگیا پنا گزینوں نےبنگلہ دیش اور بھارت سمیت دیگر ممالک میں پناہ لی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

دیلی میں روہنگیا پناہ گزینوں کی ایک بستی کو انتہاپسندوں نے جلا کر راکھ کردیا۔ 13 جون 2021

بھارت ان تمام روہنگیا پناہ گزینوں کو غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر دیکھتا ہے جو عشروں سے وہاں پرامن طریقے سے رہ رہے ہیں۔

سن 2014 میں نریندرمودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے روہنگیا پناہ گزینوں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور گزشتہ چند برسوں کے دوران کئی سو روہنگیاز کو غیر قانونی داخلے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور درجنوں کو میانمار واپس بھیج دیا گیا ہے۔

نومبر 2022 میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ بھارت میں 21 ہزار سے زیادہ روہنگیا پناہ گزین ہیں۔

دیلی کے ایک علاقے میدان پور کھادر میں روہنگیا پناہ گزینوں کی ایک بستی کو انتہا پسندوں نے جلا ڈالا۔ 13 جون 2021

پناہ گزینوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر روہنگیا کمیونٹی کے خلاف نفرت آمیز پوسٹس اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کی وجہ سے بھارتی معاشرے میں روہنگیا مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے خلاف تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

بھارت میں مقیم روہنگیا پناہ گزین اور روہنگیا ہیومن رائٹس انیشی ایٹو کے بانی ڈائریکٹر صابر کو من کہتے ہیں کہ فیس بک اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیر مہم نے ہماری کمیونٹی کو بھارتیوں کی نظر میں مجرم بنا دیا ہے جس سے روہنگیا مخالف جذ بات اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

(شیخ عزیز الرحمان، وی او اے نیوز)