کراچی کے روہنگیا اپنے عزیزوں کے بارے میں فکرمند

کراچی میں مقیم روہنگیا کمیونٹی میانمار میں اپنے رشتے داروں کی سلامتی کے بارے میں بھی پریشان ہے۔ کچھ کا کہنا ہے ہمارے چند رشتے داروں کو قتل کردیا گیا، جبکہ کچھ لوگوں کا اپنے عزیز و اقارب سے رابطہ ہی نہیں ہو پا رہا۔

میانمار میں گزشتہ دو ہفتے سے جاری پرتشدد واقعات نے پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں آباد تین لاکھ روہنگیا افراد کی نصف صدی پرانی ان تلخ یادوں کو تازہ کر دیا ہے جب وہ ایسے ہی حالات کا شکار ہو کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔

کراچی میں مقیم روہنگیا کمیونٹی میانمار میں اپنے رشتے داروں کی سلامتی کے بارے میں بھی پریشان ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ہمارے چند رشتے داروں کو قتل کر دیا گیا، جبکہ کچھ لوگوں کا اپنے عزیز و اقارب سے رابطہ ہی نہیں ہو پا رہا۔

کراچی کی روہنگیا کمیونٹی ان تارکین وطن پر مشتمل ہے جو سن ساٹھ اور ستر کے عشرے میں نقل مکانی کرکے پاکستان آئے۔ پرائی زمین پر کئی عشرے گزارنے کے باوجود روہنگیا کیمونٹی کے افراد اپنے وطن میں موجود عزیزوں سے رابطے میں ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران موبائل اور سوشل میڈیا کی سہولت آنے سے یہ رابط مزید مضبوط اور قریبی ہوگئے ہیں۔

برطانوی خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق، پچھلے دوہفتوں کے دوران میانمار میں فوجی آپریشن کے باعث تقریباً تین لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلا دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔ میانمار کی فوج کا کہنا ہے کہ آپریشن فوج پر حملوں کے بعد شدت پسندوں کے خلاف شروع کیا گیا۔

فوجی آپریشن کے دوران سینکڑوں دیہات نذر آتش کر دئیے گئے اور چار سو سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔

کراچی میں روہنگیا کمیونٹی کے سینئر ارکان انیس سو باسٹھ میں فوجی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جانیں بچا کر کراچی آئے تھے۔انہوں نے بنگلا دیش جو اس وقت مشرقی پاکستان تھا وہاں تک پہنچنے کے لئے کبھی میلوں پیدل سفر کیا تو کبھی کشتی کا سہارا لیا، جبکہ بنگلا دیش کے بعد ان کی اگلی منزل کراچی بنی۔

کچی آبادی ارکان آباد میں رہائش پزیر زیادہ تر روہنگیا افراد کی پیدائش پاکستان میں ہوئی۔ میانمار سے ہجرت کرنے والے بھی ارکان آباد کے رہائشیوں میں شامل ہیں۔ ارکان آباد کا نام میانمار کی مسلم اکثریتی ریاست رخائن کی مناسبت سے رکھا گیا ہے جو اس وقت ’ارکان‘ کہلاتی تھی۔

راحیلہ صادق پندرہ سال قبل پاکستان آئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میانمار میں موجود رشتے داروں سے موبائل رابطہ گزشتہ دو ہفتوں سے منقطع ہے۔ آنسو بھری آنکھوں سے راحیلہ کا کہنا تھا جو کچھ وہاں ہو رہا ہے وہ انٹرنیٹ پر دیکھا۔

رخائن میں جاری پرتشدد واقعات کی ویڈیوز اور تصاویر ارکان آباد میں تقریباً سبھی نے دیکھی ہیں اور ہر کوئی اپنے پیاروں کی سلامتی کے بارے میں فکرمند ہے۔

پچاس سالہ ماہی گیر نور محمد نے بتایا کہ ’’میرے تین رشتے داروں کو کچھ دن پہلے رخائن میں قتل کردیا گیا۔ میرا بھائی، برادر نسبتی اور بھانجا۔۔ رخائن میں مقیم تھے۔ تینوں مارے جا چکے ہیں۔ انہیں فوج نے قتل کیا۔ تینوں رشتے داروں کے قتل کی خبر ایک اور بھانجے نے دی جو بچ گیا ہے۔‘‘

حوربہار تیس سال قبل اپنی ماں اور بہن کے قتل کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ رخائن سے کراچی منتقل ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میری ایک بہن رہ گئی تھی جو دس دن قبل بنگلا دیش گئی تھی۔ اسے رخائن سے بنگلا دیش لانے والے کشتی کے مالک نے یرغمال بنا لیا ہے اوراس کی رہائی کے لئے تاوان مانگ رہا ہے۔‘‘

ارکان آباد میں مچھلی کی بورچ بس گئی ہے۔ یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ یا تو مچھلی پکڑنے والی کشتیوں پر کام کرتے ہیں یا پھر شکار کی گئی مچھلیوں کی صفائی کرتے ہیں جو کورنگی کریک سے شکار کرکے لائی جاتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر افراد کا شکوہ ہے کہ وہ پاکستانی شناختی کارڈ سے محروم ہیں جو بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے، اسکول میں بچوں کے داخلے، سرکاری اسپتال میں علاج اور نوکری کے لئے ضروری ہے۔

ماہی گیری ان گنے چنے چند کاموں میں سے ایک ہے جہاں شناختی کارڈ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کبھی کبھار کوسٹ گارڈز شناختی کرانے کا کہتے ہیں۔

پاکستان روہنگیا سالیڈیرٹی آرگنائزیشن کے سربراہ نور حسین کہتے ہیں’’پاکستان میں روہنگیا افراد کے لئے کوئی پالیسی نہیں۔ جب تک حکومت انہیں شناختی کارڈ جاری نہیں کرتی وہ ترقی نہیں کرسکتے۔ روہنگیا برادری کوشہریت دینے سے ملک کو فائدہ ہی ہوگا۔‘‘

نور حسین کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’روہنگیا کمیونٹی انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہی ہے۔ ہمارے نوجوان تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے تباہ ہورہے ہیں اور غربت و بیروز گاری بڑھ رہی ہے، جبکہ حکومت ہماری کمیونٹی کی پکڑی ہوئی مچھلیاں ایکسپورٹ کرکے کئی ملین ڈالر کما رہی ہے۔‘‘