کابل : افغان صدر کی تقریر کے دوران صدارتی محل پر راکٹ حملہ

واقعے کے بعد کابل پر ہیلی کاپٹر گشت کر رہا ہے جب کہ اس مکان سے دھواں اٹھ رہا ہے جہاں سے مبینہ طور پر حملہ آوروں نے راکٹ برسائے تھے۔

کابل پولیس کے ایک افسر جان آغا کے مطابق پہلا راکٹ صدارتی محل کے بالکل نزدیک گرا جب کہ دوسرا راکٹ امریکی سفارت خانے اور نیٹو کے زیرِ استعمال ایک عمارت کے نزدیک گرا۔ داعش نے ذمہ داری قبول کرلی

داعش کی ’عمق‘ نیوز ایجنسی نے منگل کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں آج صبح صدارتی محل پر ہونے والے راکٹ حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت میں جنگجووں کی جانب سے فائر کیے جانے والے دو راکٹ صدارتی محل کے نزدیک گرے ہیں تاہم واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق افغان حکام کا کہنا ہے کہ دونوں راکٹوں کا ہدف صدارتی محل تھا اور وہ اس وقت فائر کیے گئے جب صدر اشرف غنی عیدالاضحیٰ کے موقع پر ٹیلی ویژن پر قوم سے براہِ راست خطاب کر رہے تھے۔

کابل پولیس کے ایک افسر جان آغا کے مطابق پہلا راکٹ صدارتی محل کے بالکل نزدیک گرا جب کہ دوسرا راکٹ امریکی سفارت خانے اور نیٹو کے زیرِ استعمال ایک عمارت کے نزدیک گرا۔

دھماکوں کی آوازیں صدر اشرف غنی کی تقریر کے دوران براہِ راست نشر ہوئیں جس پر صدر غنی نے کچھ دیر کے لیے اپنی تقریر روک دی اور پھر کہا، "اگر وہ سمجھتے ہیں کہ راکٹ حملوں سے افغانوں کو شکست دے دیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔"

کابل کے جس علاقے میں یہ راکٹ گرے ہیں وہ شہر کا محفوظ ترین علاقہ تصور ہوتا ہے جہاں سرکاری دفاتر اور غیر ملکی سفارت خانے واقع ہیں۔

راکٹ حملوں کے فوراً بعد کابل کی فضا میں جنگی ہیلی کاپٹروں کو پرواز کرتے دیکھا گیا جب کہ ہیلی کاپٹروں نے اس گھر پر بمباری بھی کی ہے جہاں سے مبینہ طور پر راکٹ فائر کیے گئے تھے۔

کابل پولیس کے ترجمان حشمت استانکزئی نے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا ہے کہ افغان پولیس نے منگل کی صبح ایک مشکوک گاڑی کا پیچھا کیا تھا جو شہر کی مرکزی عید گاہ کے نزدیک ایک کچے گھر کی جانب گئی تھی۔

استانکزئی کے بقول پولیس کو شبہ ہے کہ حملہ آور اسی گاڑی میں سوار تھے جنہوں نے بعد ازاں اس گھر سے راکٹ فائر کیے۔

ترجمان کے مطابق راکٹ حملوں کے فوراً بعد گن شپ ہیلی کاپٹر طلب کیے گئے تھے جنہوں نے بمباری کرکے اس گھر اور گاڑی کو تباہ کردیا۔

بعض عینی شاہدین نے دعویٰ کیا ہے کہ راکٹ حملے کے بعد عید گاہ کے نزدیکی علاقے میں فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ فائرنگ کس نے کی۔

ایک اور پولیس افسر محمد اکرم نے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا ہے کہ راکٹ حملے میں چار افراد ملوث تھے اور یہ واضح نہیں کہ آیا وہ چاروں ہی ہیلی کاپٹر کی بمباری میں مارے گئے ہیں۔

واقعے کے بعد پولیس کی بھاری نفری نے علاقے کو گھیر لیا تھا اور علاقے کی تلاشی لی جا رہی تھی۔

تاہم واقعے کے کچھ دیر بعد افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے صحافیوں کو بتایا کہ تمام حملہ آور مارے جاچکے ہیں جب کہ ان کے ساتھ مقابلے میں دو افغان سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔

تاحال طالبان یا کسی اور تنظیم نے راکٹ حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ لیکن عیدالاضحی کے موقع پر کابل کے حساس ترین علاقے میں اس حملے سے صدر اشرف غنی کی جانب سے ملک میں قیامِ امن کی کوششوں کو دھچکا پہنچا ہے۔

صدر غنی نے اتوار کو طالبان کو عید کے موقع پر مشروط جنگ بندی کی پیش کش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر طالبان آمادہ ہوں تو لڑائی روکی جاسکتی ہے۔

لیکن اطلاعات ہیں کہ طالبان نے افغان صدر کی یہ پیش کش مسترد کردی ہے۔