نیویارک میں ٹرائبیکا فلم فیسٹول جاری ہے، جس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ مصنف اور دنیا بھر کے کھانوں اور ثقافت پر ٹی وی سفرناموں کی میزبانی کرنے والے سلیبرٹی شیف انتھونی بورڈین کی زندگی پر بننے والی ڈاکیومینٹری کا پریمئر ہوا۔ اس فلم کا نام ’روڈ رنر: انتھونی بورڈین کی زندگی پر اک فلم' ہے اور یہ اگلے ماہ سینما گھروں میں پیش کی جائے گی۔
اینتھونی بورڈین 8 جون 2018 کو فرانس میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائے گئے تھے۔ ان کی تیسری برسی پر جاری ہونے والی فلم کے ٹریلر کو یوٹیوب پر اب تک 28 لاکھ سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے جو کہ کسی ڈاکومنٹری فلم کے لئے غیر معمولی ہے اور انتھونی بورڈین کی لوگوں میں مقبولیت ظاہر کرتا ہے۔
اس فلم کے تخلیق کار مورگن نیویل ہیں جو اس سے قبل اپنی ڈاکیومنٹری فلم 'ٹونٹی فیٹ فرام سٹارڈم' پر آسکر ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
SEE ALSO: یو اے ای: یہودیوں کے لیے پہلا کوشر ریستوران کھولنے کی تیاریمورگن نیویل کا کہنا ہے کہ بورڈین کی زندگی پر فلم بنانے کے لئے سب سے پہلے انہوں نے ساڑھے 18 گھنٹے کی ایک پلے لسٹ یعنی ویڈیوز کی فہرست ترتیب دی۔ اس پلے لسٹ کو 'ٹونی' نام دیا گیا۔
اس پلے لسٹ میں وہ سارے گانے جن کا بورڈین نے کبھی بھی ذکر کیا تھا، وہ اکٹھے کیے گئے۔ نیویل کہتے ہیں بورڈین کے جانے کے بعد صرف ان کی موت پہ تبصرہ ہو تارہا،جب کہ ان کی کوشش تھی کے انتھونی بورڈین کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں سے ان کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے۔
اسی لئے ' روڈ رنر: انتھونی بورڈین کی نہ ان کی اچانک موت پر تحقیق ہے اور نہ ہی ان کے مرنے کا نوحہ بلکہ یہ بورڈین کی بھرپور زندگی کا جشن ہے۔
مورگن نیویل کہتے ہیں ان کے نزدیک یہ فلم ایسے تمام لوگوں کے لئے تھیریپی یا علاج ثابت ہوگی جو بورڈین کے یوں اچانک چلے جانے پر غمگین بھی ہیں اور غیر یقینی کی صورت حال سے دوچار بھی۔
بقول نیویل 'مجھ سمیت بورڈین کے تمام مداحوں کے لیے ان کی موت ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ٹونی بورڈین اپنی جان خود کیسے لے سکتا ہے؟ لوگوں کو اب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں دشواری کا سامنا ہے'۔
Your browser doesn’t support HTML5
’روڈرنر' میں بورڈین کی زندگی کے انجام کو سمجھنے کے لئے ان زندگی کے مختلف ادوار کو ٹٹولا گیا ہے۔ وہ سفر جو نیویارک میں اک شیف کے طور پر شروع ہوا، پھر بورڈین کی تحریر کردہ کتاب 'کچن کانفیڈینشل' نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
اس کے بعد ان کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے جس میں 'پارٹس ان-نون' اور اس جیسے دوسرے سفرناموں نے انہیں ایک غیر معمولی اور مستند ٹی وی سٹار بنا دیا۔ ان ٹی وی سفرناموں میں دنیا کے دور دراز علاقوں کے طعام، ثقافت اور تاریخ کو فلمایا گیا۔
نیویل کہتے ہیں کہ فلم بنانے کے شروع کے چند مہینوں میں انہیں بورڈین کی زندگی کے اختتام کو نظر انداز کرنا پڑا تاکہ وہ ان کے بتائے ہوئے دنوں پر اپنی توجہ مرکوز کر سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے انتھونی بورڈین کو ایک ایسا محقق پایا جو ہمیشہ کسی جستجو میں ہوتا ہے مگر بعض اوقات اس جستجو میں انسان خود کہیں کھو جاتا ہے۔
انسان کو یہ ادراک ہونا کہ وہ کچھ نہیں جانتا یا اس بات پر یقین کہ سب کچھ بے وقعت اور بے مایہ ہے، بظاہر تو یہ روحانی بیداری نظر آتی ہے مگر یہ مایوس کن بھی ہے۔ یہ انسان کو اس کی جڑوں سے اکھاڑ پھینکتا ہے، اس کو اس احساس سے جدا کر دیتا ہے کہ اس کے اطراف لوگ اسے کس قدر چاہتے ہیں۔
SEE ALSO: کرسمس کا ایک روایتی پکوان ۔۔ جنجر بریڈاس ڈاکیومنٹری فلم کے لئے نیویل نے بورڈین کے ایسے کئی قریبی رفقاء سے گفتگو کی جو اب تک اس موضوع پر گفتگو کرنے میں تردد کا شکار تھے۔ ان میں بورڈین کی سابقہ اہلیہ اوٹاویہ بوسیہ بھی شامل ہیں۔
نوین کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں بوسیہ سے شادی کی ناکامی کے بعد بورڈین نہ صرف ایک ایسی گھریلو زندگی سے جدا ہوگئے تھے جس نے انہیں اپنی جڑوں سے پیوستہ کر رکھا تھا بلکہ اس احساس سے بھی کہ وہ خود کون ہیں اور لوگوں کے لئے جن میں ان کی اپنی بیٹی بھی شامل ہے، کیا معنی رکھتے ہیں۔
تاہم اس ڈاکومنٹری فلم میں نیویل نے چند اہم ناموں کو شامل نہیں کیا۔ ان میں بورڈین کے ساتھ کام کرنے والے سینیمٹوگرافر زیک زومبونی جنہیں بورڈین نے نوکری سے برطرف کر دیا تھا اور اطالوی فلم میکر ایشیا آرجینٹو شامل ہیں جو موت سے کچھ عرصہ قبل تک ان کی گرل فرینڈ تھیں۔ کئی مداح ان سے رشتہ ختم ہونے کو بھی بورڈین کی خودکشی کی وجہ گردانتے ہیں۔
نیویل کا کہنا ہے کہ ایسا انہوں نے دانستہ کیا۔ جن افراد کو بورڈین اپنی زندگی سے خود نکال چکے تھے انہیں ان پر توجہ مرکوز کرنا مناسب نہیں تھا۔
نیویل بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے انتھونی بورڈین کے قریبی افراد سے بات چیت شروع کی تو وہ یہ تو جانتے تھے کہ بورڈین ثقافت کی نیرنگی کے شیدائی تھے۔ اس کے ساتھ ان کی باریک بین نظر ان گوشوں پر بھی پڑتی تھی جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے جوڑتے ہیں۔ مگر ان کے قریبی دوستوں سے بات کرکے انہیں پتہ چلا کہ اس کے ساتھ ساتھ بعض معاملات میں نادان بھی تھے۔ ان کی شخصیت کے یہی متضاد پہلو اس فلم کی بنیاد بنے۔ یعنی اینتھونی بورڈین ایک ایسی نمایاں شخصیت جو زندگی پر گہری نگاہ رکھتی ہے مگر دوسری طرف اسی زندگی کے کئی حقائق کو دیکھنے سے قاصر بھی ہے۔