بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے آپریشنل کمانڈر ریاض احمد نائیکو عرف محمد بن قاسم کی ہلاکت کے خلاف پُر تشدد مظاہروں کا سلسلہ جمعرات کو دوسرے دن بھی جاری رہا۔ تاہم، حکام کا کہنا ہے کہ''بدھ کے مقابلے میں ان کی شدت نسبتا" کم تھی اور صورتِ حال مجموعی طور پر پُرامن رہی۔
بدھ کو جنوبی ضلع پُلوامہ میں سرکاری دستوں کے ساتھ ہونے والی ایک جھڑپ کے دوران ریاض نائیکو اور ان کے ایک قریبی ساتھی کی ہلاکت کے بعد علاقے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
حٖفاظتی دستوں نے کئی مقامات پر پتھراؤ کرنے والے ہجوموں پر قابو پانے کے لیے طاقت استعمال کی۔ حفاظتی دستوں کی فائرنگ اور چھرے والی بندوقوں کے استعمال کے نتیجے میں ایک شخص جس کی شناخت جہانگیر یوسف وانی کے طور پر کی گئی ہے ہلاک اور تقریباً ڈیڑھ درجن افراد زخمی ہوئے ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ بتیس سالہ جہانگیر کے گردن میں گولی لگی تھی۔ زخمیوں میں سے کم سے کم ایک کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
پُلوامہ کے بیگ پورہ علاقے میں جہاں عسکریت پسندوں اور حفاظتی دستوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی جمعرات کو عوامی مظاہروں میں شامل نوجوانوں اور حفاظتی دستوں کے درمیان وقفے وقفے سے تصادم ہونے کا سلسلہ جمعرات کو دوسرے دن بھی جاری رہا۔
وادی کشمیر کے کئی دوسرے علاقوں سے بھی اس طرح کے مظاہروں کی اطلاعات ملی ہیں۔ تاہم، پولیس حکام نے انہیں "معمولی بلکہ ناقابلِ ذکر" واقعات قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیگ پورہ میں جمعرات کی صبح کو چند "شر پسند عناصر" نے امن و امان میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی تھی، جسے ناکام بنا دیا گیا۔
بیگ پورہ ریاض نائیکو کا آبائی علاقہ ہے۔ بدھ کو کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی لڑائی میں کئی نجی گھر یا تو مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے یا انہیں شدید نقصان پہنچا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج اور دوسرے سرکاری دستوں نے علاقے میں محصور ہونے والے ریاض نائیکو اور ان کے ساتھی کو زیر کرنے کے لیے مارٹر بم داغے اور راکٹ لانچروں اور ہلکے اور درمیانی درجے کے ہتھیاروں کا استعمال کیا۔
وادی کشمیر میں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے پچاس دن سے نافذ لاک ڈاؤن میں ریاض نائیکو کی ہلاکت سے پیدا شدہ کشیدگی اور کئی علاقوں میں پھوٹ پڑنے والے عوامی مظاہروں کے پیشِ نظر اسے نہ صرف سخت کر دیا گیا ہے بلکہ بعض علاقوں میں پولیس اور نیم فوجی دستے کرفیو یا کرفیو جیسی پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ وادی میں انٹرنیٹ سروسز کو مکمل طور پر اور موبائل فون سروسز کو جزوی طور پر بند کردیا گیا ہے۔
پولیس ذرائع نے اس اطلاع کی تردید کی ہے کہ ریاض نائیکو کے ساتھ ہلاک ہونے والا دوسرا عسکریت پسند استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعت 'تحریکِ حریت' کے سربراہ محمد اشرف صحرائی کا بیٹا جیند اشرف ہے۔ ذرائع نے ہلاک کیے گیے اس نوجوان کی شناخت عادل بٹ کے طور پر کی ہے اور کہا ہے کہ بُدھ کے روز پُلوامہ ہی کے شرشالی کھریو علاقے میں اسی طرح کی ایک جھڑپ کے دوران مارے جانے والے مشتبہ عسکریت پسندوں عادل وانی اور رفیق ڈار کا تعلق کالعدم لشکرِ طیبہ سے تھا۔
پیشے کے لحاظ سے ریاض نائیکو ریاضی کے استاد تھے۔ لیکن وہ 2012 میں اپنی ملازمت چھوڑ کر عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوگیے تھے۔ پولیس نے انہیں فوری طور پر عسکریت پسندوں کے 'اے پلس پلس' زمرے میں ڈال دیا تھا۔
اُن کا شمار معروف کشمیری عسکری کمانڈر برہان مظفر وانی کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ 8 جولائی 2016 کو بھارتی فوج نے ضلع اننت ناگ کے کوکر ناگ علاقے میں کیے گیے ایک آپریشن کے دوران مظفر وانی کو ہلاک کیا تو اُن کی جگہ ذاکر رشید بٹ عرف ذاکر موسیٰ کو حزب المجاہدین کا آپریشنل کمانڈر بنایا گیا۔ لیکن ذاکر موسیٰ نے بہت جلد حزب المجاہدین سے علحیدگی اختیار کرلی اور ایک نیا عسکری گروپ انصار غزوۃ الہند تشکیل دیدیا جسے القاعدہ نے بھارت میں اپنی سیل یا شاخ کے طور پر تسلیم کیا۔ حزب المجاہدین میں ان کہ جگہ ریاض نائیکو نے لے لی۔
بھارت کی وزارتِ داخلہ نے جون 2019 میں نائیکو کو "سب سے زیادہ مطلوب دس دہشت گردوں" کی فہرست میں شامل کیا تھا اور جموں و کشمیر میں عسکریت مخالف سیکیورٹی گرڈ کو انہیں اور دوسرے مطلوب عسکریت پسندوں کو "جلد از جلد موت کے گھاٹ اتارنےکا ولین کام" سونپا تھا۔
بھارتی عہدیداروں نے کہا تھا کہ مطلوب افراد کی یہ فہرست جموں و کشمیر پولیس، فوج اور وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف اور دوسرے حفاظتی دستوں اور سراغرساں اداروں کی طرف سے موصول ہونے والی خفیہ رپورٹوں کی بنیاد پر تیار کی ہے۔ مطلوب افراد میں سے چھ کا تعلق حزب المجاہدین، دو کا جیشِ محمد اور ایک ایک کا لشکرِ طیبہ اور البدر مجاہدین سے تھا۔ مقامی پولیس نے ریاض نائیکو کے سر پر بارہ لاکھ روپے کا انعام مقرر کر رکھا تھا۔
سری نگر میں نامہ نگاروں کے ایک مخصوص گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار نے کہا کہ حٖفاظتی دستے ریاض نائیکو کو پچھلے چھہ ماہ سے شد و مد کے ساتھ تلاش کر رہے تھے۔ انہوں نے ریاض نائیکو کی ہلاکت کو حفاظتی دستوں کو ملنے والی ایک بڑی کامیابی اور عسکریت پسندوں بالخصوص حزب المجاہدین کے لیے ایک دھچکا قرار دیا ہے۔
اس دوران پولیس نے ریاض نائیکو اور ان کے ساتھ ہلاک ہونے والے اُن کے ساتھی کی میتوں کو کسی نامعلوم مقام پر دفنا دیا ہے۔
بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں حفاظتی دستوں کے ساتھ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی نعشوں کو اب ان کے رشتے داروں کو سونپنے کے بجائے انہیں پولیس اُن کے آبائی علاقوں سےدور ایسے قبرستانوں میں دفناتی ہے جہاں عمومی طور پر اس طرح کے واقعات میں مارے جانے والے غیر ملکی یا غیر شناخت شدہ عسکریت پسندوں کی آخری رسومات ادا کی جاتی تھیں۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے مقامی عسکریت پسندوں کی نعشوں کو ان کے لواحقین کے حوالے نہ کرنے کا فیصلہ اس لیے لیا گیا تاکہ ان کی تجہیز و تکفین میں لوگ بڑی تعداد میں شریک نہ ہوں جیسا کہ پولیس کی طرف سے منع کرنے کے باوجود اپریل کے شروع میں شمال مغربی ضلع بارہمولہ میں ہوا تھا۔
حکام کا استدلال ہے کہ عسکریت پسندوں کی تدفین میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کرونا وائرس (کووڈ-19) کے خطرے سے نمٹنے کے لیے وادی کشمیر میں 19 مارچ سے نافذ لاک ڈاؤن کے مقصد کو فوت کر سکتی ہے۔ تاہم، پولیس عہدیدار وجے کمار نے بتایا کہ اگر مارے جانے والے کسی عسکریت پسند کی پہچان کرنے کے لیے اُس کے گھر والے آگے آتے ہیں تو ان میں سے چند ایک کو بھی تدفین میں شامل ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں 1989 میں شورش کے آغاز کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ہلاک شدہ عسکریت پسندوں کی نعشوں کو اُن کے گھر والوں کو سونپنے کے بجائے پولیس انہیں از خود دفن کرتی ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بعض کارکنوں نے اسے ناپسندیدہ قرار دیا ہے، جبکہ حال ہی میں مارے گیے عسکریت پسندوں کے رشتے داروں کے مطابق یہ ایک غیر انسانی عمل ہے۔ انہوں نے اس پر احتجاج کیا اور حکام پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے کے انسانی پہلو کو نظر انداز نہ کرے۔
انسپکٹر جنرل وجے کمار سے استفسار کیا گیا کہ اس ہفتے کے شروع میں ہندوارہ کے علاقے میں عسکریت پسندوں کے ایک حملے کے جواب میں حفاظتی دستوں کی طرف سے کی گئی فائرنگ میں ہلاک ہونے والے جسمانی طور پر معذور ایک چودہ سالہ مقامی لڑکے کی نعش کو کیوں لواحقین کے بجائے پولیس نے خاموشی کے ساتھ کسی اور جگہ سپردِ خاک کیا۔ انہوں نے کہا کہ "اس بات کا قوی امکان تھا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کی تدفین کے موقعے پر امڈ آتی۔ ہم نے اس خدشے کا اظہار اس لڑکے کے گھر والوں کے سامنے کیا تو وہ بات کو سمجھ گئے۔ اسی لیے، اسے آبائی علاقے کے بجائے کہیں اور دفنایا گیا"-