بین المذاہب ہم آہنگی کے وزیر ڈاکٹر پال بھٹی نے عدالت کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے ثابت ہو گیا ہےکہ پاکستان میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔
اسلام آباد —
اسلام آباد کی ایک عدالت میں جمعہ کو ہونے والی سماعت میں رمشا کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ سرکاری طبی رپورٹ میں تصدیق کی جا چکی ہے کہ ان کی موکلہ کی عمر 14 سال ہے اور وہ ’ڈاؤن سنڈروم‘ نامی ذہنی بیماری کا شکار بھی ہے اس لیے اسے ضمانت پر رہا کیا جائے۔
ایڈیشنل اینڈ سیشن جج اعظم خان نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پانچ پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں پر گزشتہ تین ہفتوں سے اڈیالہ جیل میں قید اس عیسائی لڑکی کی رہائی کا حکم جاری کیا۔
عدالتی کارروائی کے فوراً بعد بین المذاہب ہم آہنگی کے وزیر ڈاکٹر پال بھٹی نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں عدالت کے فیصلے کو سراہا اور کہا کہ اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔
’’اس مقدمے کو ختم کرنے کے لیے جتنی بھی تحقیقات کی جائیں گی وہ مستقبل میں ہمارے لیے بہت اہم ہو گا جس سے پاکستان کی تاریخ میں اس قانون کے حوالے سے’ٹرن اوور‘ ایک نیا موڑ ہو گا۔ جس میں یہ ثابت کیا جائے گا کہ یہ قانون صرف اقلیتوں کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جو اس (توہین اسلام) قانون کی عزت نہیں کرتا اس کو بھی سزا دی جائے گی۔‘‘
ڈاکٹر پال بھٹی نے رہائی کے بعد مسیحی لڑکی کو ملک سے باہر بھیجنے کی قیاس آرائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ رمشاء اور اس کے اہل خانہ کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
’’ہمارے ساتھ علمائے دین، پاکستان کے مخیر حضرات کھڑے ہیں اور اگر لڑکی باعزت طریقے سے آزاد ہو کر معاشرے میں آتی ہے تو اس کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہیئے۔ اس نکتہ نظر کو دیکھتے ہوئے میں نہیں سمجھتا کہ (رمشا کو )ملک سے باہر بھیجنے کی ضرورت ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے رمشاء کے خلاف توہین اسلام کے الزام میں دائر مقدمے نے اس وقت ایک نیا رخ اختیار کر لیا تھا جب اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میرا جعفر کی مسجد کے امام خالد جدون کو کمسن مسیحی لڑکی کے خلاف پیش کیے گئے شواہد میں رد و بدل کے الزام میں پولیس نے گرفتار کر لیا۔
میرا جعفر کی مسجد کے مؤذن حافظ زبیر نے الزام لگایا تھا کہ امام مسجد خالد جدون نے رمشاء سے برآمد ہونے والے خاکستر مواد سے بھرے تھیلے میں مقدس اوراق شامل کیے تھے۔
رمشاء میسح کو 16 اگست کو میرا جعفر سے پولیس نے اس وقت اپنی تحویل میں لیا تھا جب اہل علاقہ نے مقدس اوراق کو نذر آتش کرنے کے الزام پر اس لڑکی کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ بعد ازاں توہین مذہب کے قانون کے تحت اس کے خلاف باضابطہ مقدمہ درج کر لیا گیا۔
امریکہ میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ہیومین رائٹس واچ‘ نے عدالت کے فیصلے کو سراہا ہے۔
تنظیم کے پاکستان میں سربراہ علی دایان حسن نے رمشا مسیح کے خلاف تمام الزامات واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔
پاکستان میں مذہبی رہنماء اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی حکومت سے رمشاء اور اس کے خاندان کو مکمل تحفظ کی فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
ایڈیشنل اینڈ سیشن جج اعظم خان نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پانچ پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں پر گزشتہ تین ہفتوں سے اڈیالہ جیل میں قید اس عیسائی لڑکی کی رہائی کا حکم جاری کیا۔
عدالتی کارروائی کے فوراً بعد بین المذاہب ہم آہنگی کے وزیر ڈاکٹر پال بھٹی نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں عدالت کے فیصلے کو سراہا اور کہا کہ اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔
’’اس مقدمے کو ختم کرنے کے لیے جتنی بھی تحقیقات کی جائیں گی وہ مستقبل میں ہمارے لیے بہت اہم ہو گا جس سے پاکستان کی تاریخ میں اس قانون کے حوالے سے’ٹرن اوور‘ ایک نیا موڑ ہو گا۔ جس میں یہ ثابت کیا جائے گا کہ یہ قانون صرف اقلیتوں کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جو اس (توہین اسلام) قانون کی عزت نہیں کرتا اس کو بھی سزا دی جائے گی۔‘‘
ڈاکٹر پال بھٹی نے رہائی کے بعد مسیحی لڑکی کو ملک سے باہر بھیجنے کی قیاس آرائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ رمشاء اور اس کے اہل خانہ کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
’’ہمارے ساتھ علمائے دین، پاکستان کے مخیر حضرات کھڑے ہیں اور اگر لڑکی باعزت طریقے سے آزاد ہو کر معاشرے میں آتی ہے تو اس کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہیئے۔ اس نکتہ نظر کو دیکھتے ہوئے میں نہیں سمجھتا کہ (رمشا کو )ملک سے باہر بھیجنے کی ضرورت ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے رمشاء کے خلاف توہین اسلام کے الزام میں دائر مقدمے نے اس وقت ایک نیا رخ اختیار کر لیا تھا جب اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میرا جعفر کی مسجد کے امام خالد جدون کو کمسن مسیحی لڑکی کے خلاف پیش کیے گئے شواہد میں رد و بدل کے الزام میں پولیس نے گرفتار کر لیا۔
میرا جعفر کی مسجد کے مؤذن حافظ زبیر نے الزام لگایا تھا کہ امام مسجد خالد جدون نے رمشاء سے برآمد ہونے والے خاکستر مواد سے بھرے تھیلے میں مقدس اوراق شامل کیے تھے۔
رمشاء میسح کو 16 اگست کو میرا جعفر سے پولیس نے اس وقت اپنی تحویل میں لیا تھا جب اہل علاقہ نے مقدس اوراق کو نذر آتش کرنے کے الزام پر اس لڑکی کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ بعد ازاں توہین مذہب کے قانون کے تحت اس کے خلاف باضابطہ مقدمہ درج کر لیا گیا۔
امریکہ میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ہیومین رائٹس واچ‘ نے عدالت کے فیصلے کو سراہا ہے۔
تنظیم کے پاکستان میں سربراہ علی دایان حسن نے رمشا مسیح کے خلاف تمام الزامات واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔
پاکستان میں مذہبی رہنماء اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی حکومت سے رمشاء اور اس کے خاندان کو مکمل تحفظ کی فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔