انسانی حقوق کی ایک معروف بین الاقوامی تنظیم نے افغانستان میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں گزشتہ سال ہلاک کی گئی ایک خاتون کے مقدمے میں ملوث افراد کی سزا کم کیے جانے پر تنقید کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے فرحندہ ملک زادہ کے قتل میں ملوث 13 افراد کی سزا کمکیے جانے پر کہا ہے کہ نظام عدل فرخندہ کو انصاف دلانے میں ناکام ہو گیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں تنظیم نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ افغانستان کی سپریم کورٹ نے 8 مارچ یعنی عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ان افراد کی سزا میں کمی کی۔
گزشتہ سال 19 مارچ کو کابل میں ایک ہجوم نے اس وقت 27 سالہ فرحندہ پر افغان دارالحکومت میں ایک مزار کے باہر حملہ کیا جب ایک شخص نے الزام لگایا تھا کہ اس نے قرآن جلایا ہے۔ تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ یہ جھوٹا الزام تھا۔
اس سفاکانہ قتل کے بعد ملک بھر میں شدید غم و غصے کا اظہار اور ملک کے نظام عدل میں اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد عورتوں کو تشدد کے خلاف تحفظ دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
ابتدائی طور پر قتل کے الزام میں چار افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ دیگر نو کو طویل قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ تاہم سپریم کورٹ نے رواں ہفتے ایک ذیلی عدالت کی طرف سے تمام مجرموں کی سزاؤں میں کمی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
ان میں سے تین کی سزائے موت کو 20 سال قید جبکہ چوتھے کی سزا کو 10 سال قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ دیگر نو مجرموں کی سزاؤں میں بھی کمی کی گئی۔
ابتدائی طور پر 30 افراد پر فرخندہ کے قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
موبائل فون پر حملے کی وڈیو میں فرخندہ کو گھونسے، لاتیں اور لکڑی کے تختوں سے مار کھاتے دیکھا جا سکتا ہے جبکے بعد ہجوم نے اس کی لاش کو دریائے کابل کے کنارے لے جا کر آگ لگا دی۔
اس واقعے کے بعد ملک بھر میں اس خاتوں کو انصاف دلانے کے لیے مظاہرے شروع ہو گئے۔ ایک افغان تنظیم نے فرخندہ کی یاد میں دریائے کابل کے کنارے ایک یادگار تعمیر کی ہے۔
افغان حکومت کی طرف سے اس حملے کی شفاف تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی گئی تھی اور کہا گیا کہ اس میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ’’افغان فوجداری نظام عدل ہر سطح پر اس کیس کی مناسب طریقے سے تحقیقات کرنے، اس میں ملوث افراد کے احتساب اور انہیں سزائیں دینے میں ناکام رہا ہے۔‘‘
تاہم افغان حکومت کی طرف سے ہیومین رائٹس واچ کے بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔