سوزن رائس وزیر خارجہ کی دوڑ سے باہر

Susan Rice

ایک مراسلے کے ذریعے رائیس نے مسٹر اوباما کو بتایا کہ اُن کے نام پر غور کیا جانا اُن کے لیے عزت کا باعث ہے، لیکن یہ ایک ایسا عہدہ ہے جسے سیاست میں نہیں گھسیٹا جانا چاہئیے، جیسا کہ ہوا ہے
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سوزن رائیس نے صدر براک اوباما سے کہا ہے کہ سبک دوش ہونے والی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی جگہ لینے کے لیے اُن کے نام پر غور کے معاملے کو واپس لیا جائے۔

جمعرات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں صدر براک اوباما نے کہا ہےکہ وہ اُن کے استعفیٰ کو منظور کرتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ رائیس اقوام متحدہ میں ایلچی اور اُن کی کابینہ میں ایک کلیدی رکن کے طور پر فرائض انجام دیتی رہیں گی۔

ایک مراسلے میں رائیس نے مسٹر اوباما کو بتایا کہ اُن کے نام پر غور کیا جانا اُن کے لیے عزت کا باعث ہے، لیکن یہ ایک ایسا عہدہ ہے جسے سیاست میں نہیں گھسیٹا جانا چاہئیے تھا، جیسا کہ ہوا۔

اس عہدے کے لیے رائیس کا نام سرکردہ امیدواروں میں سے ایک تھا، لیکن 11ستمبر کو لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی مشن پر ہونے والے حملے کے معاملے میں اُن کے بیان پر اُنھیں کافی نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز ہلاک ہونے والے چار امریکیوں میں شامل تھے۔

ریپبلیکن قانون سازوں نے رائیس پر انٹیلی جنس رپورٹوں کی غلط تشریح کرنے کا الزام لگایا۔ اس سوال تھا کہ یہ حملہ کس نے کیا۔ اُنھوں نے یہ کہا تھا کہ یہ امریکہ میں بننے والی ایک اسلام مخالف امیچوئر فلم پر احتجاج کے دوران اپنے آپ بھڑک اٹھنے والا معاملہ تھا۔

سینیٹر جان مک کین رائیس کے ناقدین میں سے ایک ہیں۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا جس کا ایک واضح اور کھلا ثبوت موجود تھا۔


اُنھوں نے اُن پر نااہل ہونے کا الزام لگایا اور کہا کہ وزیر خارجہ کے طور پر اُن کی نامزدگی کو روکنے کی خاطر جو کچھ اُن کے بس میں ہوا وہ کریں گے۔