امریکہ کی سینیٹ کے نو ریپبلکن اراکین نے ایک خط میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے روس کے ساتھ بعض معاملات پر سخت موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے البتہ انہوں نے صدر کی طرف سے مشترکہ معاملات پر تعاون کی راہ تلاش کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی۔
اس خط کی تیاری میں سینیٹر کوری گارڈنر پیش پیش تھے اور اس پر کئی دیگر ممتاز ریپبلکنز نے بھی دستخط کیے ہیں جن میں جان کرونین اور لنڈسی گراہم بھی شامل ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ بوقت ضرورت روس سے تعاون کرنا اہم ہے تاہم اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ سائیبر ہیکنگ اور یوکرین میں جارحانہ اقدام جیسے معاملات پر سخت موقف اخیتار کرنا بھی ضروری ہے۔
جمعرات کو منطر عام آنے والے خط میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ "سینیٹرز یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو مشترکہ باہمی مفادات کے معاملات پر روس کے ساتھ مشترکہ راہیں ضرور تلاش کرنی چاہیں (لیکن) اپنے اتحادیوں کے دفاع اور ہماری اقدار کے فروغ کے مفادات کی قیمت پر روس کے ساتھ تعاون کی راہ پر نہیں چلنا چاہیے۔''
سینیٹرز نے کہا کہ وہ چاہیں گے کہ روس کے مشرقی یوکرین میں جارحانہ اقدام کو روکنے کے لیے اگر ضرورت ہو ٹرمپ روس پر تعزیرات عائد کریں۔
انہوں نے کہا کہ روس کی ساتھ شام میں اس وقت تک تشدد کو روکنے پر اتفاق نہیں کرنا چاہیے جب تک روس شامی صدر بشار الاسد کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتے ہیں۔
ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے پہلے چند ہفتوں میں بارہا امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ روسی صدر ولادیمر پوٹن کا "احترام" کرتے ہیں تاہم انہوں نے کہا وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ کتنے اچھے انداز دونوں چل سکتے ہیں۔
فاکس نیوز پر اتوار کو نشر ہونے والے انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ "میں یہ کہوں گا کہ روس کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا نا رکھنے سے بہتر ہے۔ اور اگر روس دنیا بھر میں داعش کے خلاف لڑائی میں ہمارے ساتھ تعاون کرتا ہے جو کہ ایک بڑی لڑائی ہے…تو یہ ا یک اچھی بات ہے۔"
خبر رساں ادارے روئیڑز کی ایک رپورٹ کے مطابق روسی صدر پوٹن کے ساتھ 28 جنوری کو اپنے فون رابطے کے دوران ٹرمپ نے اوباما انتظامیہ کے کئی سمجھوتوں پر تنقید کی بشمول نیو اسٹارٹ معاہدے کے، جس کے تحت دونوں ملکوں کی طرف سے نصب کیے جانے والے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کو محدود کرنا بھی شامل ہے۔
روئیڑز کی رپورٹ کے مطابق پوٹن نے اس معاہدے کو مزید پانچ سال کی توسیع دینے کی بات کی۔ اگر دونوں ملک اس معاہدے کی توسیع دینے اور اس پر دوبارہ بات چیت کرنے پر رضامند نہیں ہوتے تو پھر دونوں ملکوں کو غیر محدود تعداد میں جوہری ہتھیار نصب کرنے کی اجازت ہو گی۔