طالبان نے افغان حکومت سے خفیہ ملاقاتوں کی تردید کر دی

فائل

افغانستان کی اتحادی حکومت کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر تصدیق کی تھی کہ یہ رابطے قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہوئے،

طالبان نے افغان حکومت کے عہدیداروں سے خفیہ ملاقاتوں کی اطلاعات کو باضابطہ طور پر مسترد کرے ہوئے اصرار کیا ہے کہ امن مذاکرات کے لیے اس گروپ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق، حالیہ دِنوں کے دوران، افغان حکومت کے اعلیٰ اہل کاروں اور طالبان کے نمائندوں نے کم از کم دو خفیہ ملاقاتیں کی ہیں، تاکہ طویل انتظار کے بعد، افغانستان میں لڑائی کے خاتمے کی غرض سے امن مذاکرات کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے۔

کابل میں قومی یکجہتی کی حکومت کے اندرونی ذرائع نے ’وائس آف امریکہ‘ کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قطر کی خلیج کی ریاست کے دارالحکومت دوحہ میں ملاقاتیں ہوئی ہیں، جہاں طالبان کے سیاسی مذاکرات کار مقیم ہیں۔ تاہم اُنھوں نے مزید تفصیل بتانے سے احتراز کیا۔ واضح رہے کہ قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر قائم ہے۔

اخبار گارڈین نے منگل کو شائع ہونے والی اپنی ایک ’ایکسکلوسو‘ خبر میں ذرائع کے حوالے سے کہا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ستمبر اور اکتوبر میں ہوئے، جن میں افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ معصوم ستنکزئی کی افغان طالبان کے راہنما ملا منان سے دو بدو بات ہوئی۔

ملا منان طالبان کے مرحوم بانی راہنما ملا عمر کے بھائی ہیں۔

برطانوی اخبار ’گارڈین‘ نے نام ظاہر کیے بغیر طالبان عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ اس ملاقات میں ایک سینیئر امریکی سفارت کار بھی موجود تھا۔

تاہم امریکی حکومت کی طرف سے اس دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

منگل کو دیر گئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے بیان میں کہا کہ "ہم ایسی ملاقاتوں اور بات چیت کی خبروں کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ دولت اسلامیہ (طالبان) کے نمائندوں نے نہ تو استنکزئی اور نہ ہی کابل حکومت کے کسی اور عہدیدار سے ملاقات کی۔"

ان کے بقول امن مذاکرات سے متعلق طالبان کی پالیسی "واضح ہے اور اس میں تبدیلی نہیں آئی۔" انھوں نے ذرائع ابلاغ سے بے بنیاد خبریں شائع کرنے سے گریز کرنے کا بھی کہا۔

طالبان افغان صدر کی اتحادی حکومت کو "کٹھ پتلی حکومت" قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کرتے آئے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ جب تک ملک سے تمام غیر ملکی فوجیں نہیں نکل جاتی وہ امن عمل میں شریک نہیں ہوں گے۔

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان گزشتہ سال جولائی میں پاکستان میں بات چیت کا ابتدائی دور ہوا تھا لیکن پھر یہ اچانک یہ خبر سامنے آئی کہ طالبان کے امیر ملا عمر دو سال قبل انتقال کر چکے ہیں، اس خبر کے بعد مذاکرات کا سلسلہ معطل ہو گیا تھا۔

ملا عمر کے بعد طالبان کی قیادت سنبھالنے والے ملا اختر منصور رواں سال مئی میں پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے جس کے بعد افغان امن عمل کی بحالی کی امیدیں دم توڑ گئی تھیں۔

نئے امیر ملا ہبت اللہ اخونزادہ کی زیر قیادت طالبان نے افغانستان میں تشدد پر مبنی اپنی کارروائیوں میں اضافہ کیا اور اس دوران افغان سکیورٹی فورسز کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا جب کہ طالبان نے مختلف علاقوں پر اپنا تسلط کرنے میں قابل ذکر حد تک کامیابی بھی حاصل کی۔

حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی نے گلبدین حکمت یار کے عسکریت پسند گروپ حزب اسلامی سے امن معاہدہ کیا تھا جس کے تحت اس گروپ نے عسکریت پسندی ترک کرنے پر اتفاق کیا تھا اور اس کے عوض حکمت یار سمیت اس گروپ کے روپوش راہنما افغانستان واپس آکر قومی سیاسی دھارے کا حصہ بن سکیں گے۔

رواں ماہ ہی برسلز میں ہونے والی کانفرنس کے دوران صدر اشرف غنی اپنے ملک میں تعمیر نو کے لیے 15 ارب ڈالر بین الاقوامی معاونت کے وعدے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن اس عمل کے شراکت داروں نے افغانستان میں مستقل استحکام کے لیے تنازع کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا تھا۔