’جانی نقصان ہونے والے کا سارا گھر ہی اجڑ جاتا ہے‘

جدید طب اور ریاضی کے ماخذ کا منبہ میسوپوٹیما کی تہذیب ہی سے جوڑا جا سکتا ہے۔ قدیم بابل کے ابتدائی باشندے، سمیری ہی تھے جنھوں نے فلسفے کے اہم سوالات اٹھائے، جیسا کہ ’ہم کون ہیں؟‘، ’ہم کہاں ہیں؟‘، ’ہم یہاں کیسے پہنچے؟‘

جس رات میں عراقی کردستان کے دارالحکومت، اربیل پہنچا، میرے ہوٹل کے ریستوران میں کیوبا کا ایک بینڈ موسیقی میں محو تھا۔ جو پہلا نغمہ میری کانوں پہ پڑا وہ، خاص کیریبئن لب و لہجے میں تھا، جان لنون کی آواز میں، ’امیجن‘ کے نام ہے۔

مار دھاڑ کے بغیر والی دنیا کا خیال انتہائی خوش کُن لگتا ہے؛ اُس صورت میں جب ہر سو مایوسی چھائی ہوئی ہو۔

کُردستان، میسوپوٹیما کا ایک حصہ رہا ہے، جہاں تہذیب نے جنم لیا، جہاں انسانی تاریخ کے اوراق پلٹے، جہاں کلیدی واقعات کا مشاہدہ کیا گیا، جب ایجاد کا پہیہ تیزی سے متحرک ہوا، جب اناج کی ابتدائی فصل بوئی گئی اور جب رواں خط کی تحریر کروٹ لے رہی تھی۔
جدید طب اور ریاضی کے ماخذ کا منبہ میسوپوٹیما کی تہذیب ہی سے جوڑا جا سکتا ہے۔ قدیم بابل کے ابتدائی باشندے، سمیری ہی تھے جنھوں نے فلسفے کے اہم سوالات اٹھائے، جیسا کہ ’ہم کون ہیں؟‘، ’ہم کہاں ہیں؟‘، ’ہم یہاں کیسے پہنچے؟‘۔

اِن سوالات کے نتیجے میں ہی قدیم یونان کے فلسفے نے ایک شکل اختیار کی، اور وقت کے ساتھ ساتھ، ہماری جدید دنیا وجود میں آئی۔

افسوس کہ صدیوں سے، میسوپوٹیما نے تباہ کُن جنگ و جدل جھیلا، جس میں قبائل، نسلیں، مذاہب، ملک اور تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں، جب تنازعات نے جنم لیا، دشمنیاں پھیلں اور انتقام کی آگ کا سلسلہ شروع ہوا۔

اور ایک بار پھر ہم اُسی کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو منظرنامہ انسانی اعتبار سے کوئی نیا نہیں ہے۔

ہم اخباری نمائندے اپنے پیشے کے لیے لازم ہتھیار۔۔۔قلم اور نوٹ بک لہراتے چلتے ہیں؛ اور پھر وہ جو ہم میں سے نئی تیکنیکی پود سے تعلق رکھتے ہیں وہ موبائل فون، ڈجیٹل کیمرا، نفیس لیپ ٹاپ، یہاں تک کہ کیمرے لگے ڈرون سے لیس ہوتے ہیں۔ ہم جلد باز اور اکھڑ مزاج لگتے ہیں۔ مجھے شک ہے کہ وہ جن کی زندگیاں اجڑ چکی ہیں، جو کشیدگی کا شکار ہیں اور دکھ میں گھرے ہوئے ہیں، وہ ہمیں یہی کچھ سمجھتے ہوں گے۔
ہمارے اوپر خبروں کے اوقات کا بھوت سوار رہتا ہے۔ ہم سست روی کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے، حالانکہ دھیرج سے کام لینا چاہیئے۔ چونکہ کئی مقامات پر داعش کے شدت پسندوں نے بارودی سرنگیں بچھائی ہوتی ہیں، بم نصب کیے ہوتے ہیں۔

ہم اپنے کیمرے اور آڈیو ریکارڈرز اُن لوگوں کے پاس لے جاتے ہیں جو پریشان اور ماتم کناں ہوتے ہیں، جو کئی دِنوں سے دل شکنی کا شکار ہوتے ہیں، وہ بھوکے ہوتے ہیں، گولیوں کی بوچھاڑ سے بچ نکلے ہوتے ہیں، جنھوں نے اپنے رشتہ داروں کو ہلاک و زخمی ہوتے دیکھا ہوتا ہے، اور وہ فوجی جنھوں نے اپنی جگری ساتھیوں کو کھویا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہم اپنے آپ کو بھی سنگدل لگتے ہیں۔

بس میں رپورٹر حضرات کی شوخی اور کام کے حق میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ جن کے لیے ہم لکھتے ہیں اور جن کی ہم تصاویر بناتے ہیں وہ ہمارے ارد گرد رہتے ہیں۔ وہ کہانیاں جو ہمارے ذہنوں میں ہوتی ہیں، اور ہمارے ساتھیوں کے دماغ پر سوار رہتی ہیں، وہ گھما پھرا کر، اکثر بچوں کے ہی بارے میں ہوتی ہیں۔

میرے ذہن میں اس وقت ایک بچی ہے، تین برس کی نور۔۔۔جس کی ٹانگ دو سال قبل موصل میں ہونے والی فضائی کارروائی کے دوران شدید زخمی ہوئی تھی۔ میں نے اِس ہفتے اُن کے بارے میں لکھا تھا۔

اربیل میں کُرد سرجن اس بچی کی ٹانگ بچانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

کئی بار اُس کے آپریشن ہوئے۔ میں اور میرے ساتھی، دلشاد زموئا، جو رحمدل اور آثار قدیمہ کے پروفیسر ہیں، نے جمعرات کو موصل سے رپورٹنگ کی۔ اُنھوں نے سرجنوں کو سنا جو کہہ رہے تھے کہ اس بچی کی ٹانگ کاٹنی پڑے گی، جب کہ اُنھیں یہ معلوم نہیں کہ اس کی زندگی بچ سکے گی یا نہیں۔