امریکہ میں اس وقت جہاں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 40 ہزار سے زائد ہو چکی ہے وہیں مرحلہ وار معمولات زندگی کی طرف واپسی کا ہدایت نامہ بھی جاری ہو چکا ہے۔ اس پر کیسے عمل یا کب ہو گا۔ اس سوال سے میرا شاید کوئی سروکار نہیں کیونکہ میں خود امریکہ میں پھنسے 800 پاکستانیوں کی اس فہرست میں شامل ہوں جو ہر روز طویل ہوتی جا رہی ہے۔
ان پاکستانیوں کو ایک ماہ گزر جانے کے بعد بھی یہ نہیں معلوم کہ امریکہ سے پاکستان واپسی کب اور کیسے ہو پائے گی۔
فرازے سید ان چند پاکستانیوں میں سے ایک ہیں جنہیں مارچ میں اس وقت جہاز سے آف لوڈ کیا گیا تھا جب وہ نیویارک سے پاکستان جانے کے لیے طیارے میں سوار ہوئے۔
آف لوڈ کرنے کی وجہ وہی سرکاری مخمصہ تھا جس میں فوری کرونا ٹیسٹ کروا کر ہی جہاز میں چڑھنے کی ہدایت کی گئی۔ جہاز چلا گیا اور دو دن بعد پاکستان نے تمام پروازیں بند کر دیں۔ نتیجہ یہی ہے کہ فرازے اسی نیو یارک میں پھنسی ہوئی ہیں جہاں اس وقت وبا سے 13 ہزار افراد کی موت ہو چکی ہے۔
فرازے کہتی ہیں کہ انہیں ایک ماہ گزر جانے کے بعد بھی یہ نہیں معلوم کہ کب تک انہیں اپنی بیٹی سے دور شدید پریشانی میں گزارہ کرنا ہو گا۔
میں جو کہ واشنگٹن ڈی سی سے ملحقہ ریاست ورجینیا میں ہوں، ان کی اس ذہنی اذیت کو اس لیے بھی سمجھ سکتی ہوں کیونکہ میری بات چیت روزانہ ان افراد سے ہوتی ہے جو اسی پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں جس کا سامنا مجھے یا فرازے کو ہے۔
ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جن کے پاس امریکہ کے علاوہ کینیڈا کا وزٹ ویزا بھی موجود ہے لیکن وزٹ ویزا رکھنے والے افراد کسی طور امریکہ کی سرحد پار کر کے ٹورنٹو سے پی آئی اے کی کوئی خصوصی پرواز نہیں پکڑ سکتے۔
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ امریکہ سے واپس آنے کے لیے کینیڈا جانے کی بات کچھ عجیب سی ہے تو اس کی وضاحت کے لیے بتایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی خصوصی پرواز امریکہ نہیں آ رہی۔
صبح سویرے ایک ایسے ہی صحافی خاور نعیم ہاشمی سے بات ہوئی جو پاکستان جانے کے منتظر ہیں۔ ان کے بقول ڈی سی میں واقع پاکستانی سفارت خانے کے پاس اس بات کا اب بھی کوئی جواب نہیں کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کی امریکہ میں پھنسے پاکستانیوں کو نکالنے کی کیا پالیسی ہے؟
اسی دوران وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف کی پریس کانفرنس سننے کا موقع ملا جس میں خدا خدا کر کے امریکہ میں پھنسے پاکستانیوں کا ذکر کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سوچا کہ شاید اب واپسی کی کوئی راہ نکلے کیونکہ انہوں نے پی آئی اے کی جگہ دیگر بین الاقوامی ایئر لائنز کو امریکہ سے مسافروں کو لانے کی اجازت دینے کا اشارہ دیا۔ جس کے بعد زلفی بخاری نے بھی اسی پلان کا ذکر کیا مگر 20 اپریل سے 28 اپریل کے لیے جاری کردہ شیڈول میں امریکہ کا کوئی ذکر نہیں۔
بات یہیں ختم کر دی جاتی ہے کہ پی آئی اے کی پرواز امریکہ نہیں آتی لیکن آسٹریلیا بھی قومی ایئر لائن کے روٹ پر نہیں مگر اس کا شڈیول جاری کیا گیا ہے۔
ان تمام حالات میں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ 10 اپریل کو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک میمورنڈم بھی جاری کر چکے ہیں جس میں تمام ممالک کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ امریکہ سے جلد سے جلد اپنے شہریوں کے انخلا کو یقینی بنائیں۔
میمورنڈم میں مزید کہا گیا ہے کہ اپنے شہریوں کے انخلا میں بلا ضرورت تاخیر کرنے والے ممالک پر ویزا پابندی کا اطلاق کیا جائے گا۔
ہیلتھ انشورنس کا نہ ہونا اور یہاں رہائش کے مسائل سے نمٹنا کسی اذیت سے کم نہیں۔ خاص طور پر جب آپ یہ نہ جانتے ہوں کہ واپس گھر کس روز روانہ ہوں گے۔
ہر 10 دن بعد فضائی سفر پر پابندی میں اضافہ رہی سہی امید پر بھی پانی پھر دیتا ہے۔
پاکستانی وزرا کے بیانات کے بعد سفارت خانے پر فون کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے لیکن بین الااقوامی ایئر لائنز سے ہوتی ہوئی بات ایک بار پھر قومی ایئر لائن پر آ کر رک سی گئی ہے کیوں کہ پی آئی اے کا شیڈول امریکہ کے نام سے اب بھی خالی ہے اور پاکستان واپسی کے تمام راستے امریکہ میں پھنسے پاکستانیوں کے لیے بند ہیں۔