آج کل دہلی کی تاریخی جامع مسجد کی ایک فضائی تصویر خوب وائرل ہو رہی ہے۔ اسے پہلی بار دیکھا تو دل کو کچوکے سے لگے۔ جامع مسجد کے اس وسیع و عریض صحن میں جہاں عام دنوں میں نمازیوں اور سیاحوں کا میلہ لگا رہتا تھا، ہو کا عالم ہے۔ نہ آدم نہ آدم زاد۔ سارے در مقفل۔
جامع مسجد کے مشرقی دروازے کے سامنے واقع تاریخی مینا بازار میں غبار اڑ رہا ہے۔ جنوبی دروازے کے سامنے مٹیا محل اور اردو بازار میں جہاں عام دنوں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا اور رمضان المبارک میں جہاں کی رونق دیدنی ہوتی تھی، ویرانی چھائی ہوئی ہے۔
شمالی دروازے کے سامنے دریبہ کلاں کا صرافہ بازار خاموش ہے جہاں یومیہ اربوں کا کاروبار ہوتا تھا۔ مغربی دیوار کی پشت پر واقع چاوڑی بازار میں جہاں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی تھی، ایسا عالم ہے کہ ہاتھی دوڑتا چلا جائے۔
دلی کی جامع مسجد کی زندگی میں ایسے کئی مواقع آئے جب اس کے دروازے نمازیوں کے لیے بند ہو گئے تھے۔ لیکن شاید ایسا کبھی نہیں ہوا ہوگا کہ رمضان کے مہینے میں بھی وہ غیر آباد رہی ہو اور اس کے قرب و جوار میں وحشت کا عالم ہو۔ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے۔
کرونا وائرس بھی تو پہلی بار آیا ہے اور پہلی بار لاک ڈاؤن نافذ ہوا ہے۔ ایسا لاک ڈاؤن جس نے سب کچھ بند کر دیا ہے۔ نہ صرف جامع مسجد کے علاقے کو بلکہ پورے ملک کو۔
کرونا کی وبا اور لاک ڈاؤن نے ماہِ رمضان کی عبادتیں اور اس کے معمولات بھی تبدیل کر دیے ہیں۔
کیا کسی نے کبھی سوچا تھا کہ رمضان المبارک میں لوگ مسجدوں میں نہیں جائیں گے بلکہ گھروں میں تراویح کا اہتمام کریں گے؟ کیا کسی نے سوچا تھا کہ مسجدوں میں زیادہ سے زیادہ حاضری کی تلقین کرنے والے اب سختی کے ساتھ یہ ہدایت جاری کریں گے کہ لوگ مسجدوں کا رخ نہ کریں؟
کیا کسی نے سوچا تھا کہ اگر کہیں مسجدوں میں لوگ اکٹھا بھی ہوں گے تو بالکل نئے ضابطے کے ساتھ۔ یعنی مل مل کر صف بندی کرنے کے بجائے چار چار اور چھ چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوں گے۔
یہ کرونا پیریڈ کی عبادت ہے۔ لہٰذا اس کو نئی شکل و صورت عطا کی گئی ہے۔
بھارت میں پہلا لاک ڈاؤن 25 مارچ سے شروع ہوا تھا۔ اب لاک ڈاؤن کا تیسرا مرحلہ چل رہا ہے جو 17 مئی کو ختم ہوگا۔ لیکن اس میں مزید کوئی توسیع نہیں کی جائے گی، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
جب یہ سنا جاتا تھا کہ چین کے صوبہ ووہان میں مہینوں تک لوگ بند رہے تو بڑی حیرت ہوتی تھی کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اسی لیے جب بھارت میں پہلا لاک ڈاؤن شروع ہوا تو بڑی افراتفری مچی تھی۔ لیکن اب رفتہ رفتہ لوگ عادی ہو تے جا رہے ہیں۔ انھوں نے لاک ڈاؤن کے ساتھ جینے کے آداب سیکھ لیے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہمارے علاقے ذاکر نگر میں 15 روز قبل کرونا کے مثبت کیس ملنے کے بعد جب کئی گلیاں 28 دنوں کے لیے سیل کی جانے لگیں تو عجیب نفسا نفسی کا عالم تھا۔ دوسری گلیوں میں بھی لوگوں پر بدحواسی طاری ہو گئی تھی۔ جو سبزی فروش صبح صبح گلیوں میں آگئے تھے لوگ ان پر ٹوٹ پڑے۔
بڑی تعداد میں لوگوں کو دکانوں سے اشیائے خور و نوش لے کر آتے جاتے دیکھا۔ لوگوں کو یہ اندیشہ تھا کہ ہماری گلی بھی سیل ہو جائے گی لہٰذا جو ملے لے لو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں کچھ نہ ملے اور دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ جائیں۔
آج صبح ہماری گلی میں پولیس کی گاڑی آگئی۔ ایک فلیٹ میں چھ افراد کرونا مثبت پائے گئے ہیں جن کو پولیس والے لے گئے۔ پڑوس کی کریانے کی دکان بند کرا دی گئی اور چوں کہ اسی دکان سے لوگ اشیائے ضروریہ خریدتے رہے ہیں، اس لیے پولیس نے دکان دار کو بھی ٹیسٹ کرانے کی ہدایت دی ہے۔ اندیشہ ہے کہ یہ گلی بھی سیل کر دی جائے گی۔
اگرچہ اس تیسرے لاک ڈاؤن میں کچھ نرمی کی گئی ہے لیکن وہ بھی بہت محدود ہے۔ پورے ملک کو تین زونز - ریڈ، اورینج اور گرین - میں تقسیم کیا گیا ہے۔ گرین اور اورینج میں پابندیاں کافی نرم کر دی گئی ہیں لیکن ریڈ زون میں پابندیاں جوں کی توں ہیں۔
لیکن بہر حال کوئی کب تک گھروں میں بیٹھا رہے گا۔ ضروریاتِ زندگی کے لیے تو نکلنا ہی پڑے گا۔ سو ریڈ زون میں بھی سختی کے باوجود لوگ نکل ہی رہے ہیں۔
رمضان کے مبارک مہینے میں دہلی کے مسلم علاقوں میں اگر چہ وہ پہلے جیسی رونق عنقا ہے اور ماہِ صیام بڑا سادہ سادہ سا گزر رہا ہے، لیکن افطار و سحری کے لیے انتظامات تو کرنے ہی ہیں۔ لہٰذا جامع مسجد کا علاقہ ہو یا جامعہ نگر کا، جعفرآباد کا ہو یا سیلم پور یا حوض رانی کا۔ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں کچھ نہ کچھ چہل پہل تو ضرور بڑھ گئی ہے۔
لیکن بہر حال ایسے بھی بہت سے لوگ ہیں بالخصوص 50 سال سے اوپر کے، جنھوں نے اس پورے لاک ڈاؤن کے دوران گھر کی دہلیز نہیں پار کی۔
ہم نے بھی 25 مارچ سے اب تک گھر سے باہر قدم نہیں نکالا۔ سوائے اُس ایک بار کے جب ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری ہو گیا تھا۔ سودا سلف بیٹا لے آتا ہے۔
ہماری رہائشی کالونی میں مکان کم ہیں اور فلیٹس زیادہ۔ کنکریٹ کا ایک جنگل ہے جہاں ہم رہ رہے ہیں۔ ہمارا مکان دو منزلہ ہے۔ نیچے رہائش ہے۔ اوپر نصف حصے میں دو کمروں کا ایک سیٹ ہے اور نصف چھت خالی ہے۔
بچوں نے کھلی چھت پر پرندوں کے لیے کھانا اور پانی رکھ دیا ہے۔ میں اکثر دیکھتا ہوں کہ صبح کے وقت کبھی گوریّا تو کبھی کبوتر آکر بیٹھتے ہیں اور اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ میں خاموشی سے ان کی حرکتیں دیکھتا ہوں۔ وہ کبھی آپس میں چہلیں کرنے لگتے ہیں تو کبھی پھڑپھڑانے لگتے ہیں۔ کوئی کبوتر چونچ مار کر پانی گرا دیتا ہے تو کوئی گوریّا چاول کے دانے بکھیر دیتی ہے۔
پرندوں کی یہ حرکتیں دیکھ کو مولانا ابوالکلام آزاد یاد آجاتے ہیں جنھوں نے اپنی معرکة الآرا کتاب 'غبارِ خاطر' میں ایک مضمون چڑیا چڑے کی کہانی کے لیے وقف کر دیا ہے۔ مولانا نے گوریوں کی شرارتوں کو جس دلچسپ انداز میں قلم بند کیا ہے اس کا جواب نہیں۔
بہر حال آدمی گھر میں رہے یا بوقتِ ضرورت باہر نکلے، یہ لاک ڈاؤن ہے بڑا اذیت ناک۔ نفسیاتی اذیت سب سے زیادہ ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ مصیبت تو ان مزدوروں پر آن پڑی ہے جو دیہی علاقوں سے دوسری ریاستوں میں کام کرنے جاتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان پر بھوک کا دروازہ کھل گیا ہے۔ وہ اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ٹی وی رپورٹوں میں ان کی بدحالی کی داستانیں دکھائی جا رہی ہیں۔ کوئی ہزار، پانچ سو کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے لیے پیدل ہی نکل پڑا ہے تو کوئی سائیکل سے۔ کسی نے ٹرک کا سہارا لیا ہے تو کچھ لوگ ٹینکر کے پیچھے کھڑے ہو گئے ہیں۔ گروہ در گروہ پیدل چلنے والوں میں حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔
وہ منظر تو بڑا دلخراش تھا جب اندور سے چلنے والے ایک سیمنٹ مکسر کو پولیس نے راستے میں روکا۔ معلوم ہوا کہ اس چھوٹے سے گول مٹول مکسر کے اندر 18 نوجوان بیٹھے ہوئے ہیں۔ پولیس کی ہدایت پر اس کے چھوٹے سے سوراخ سے یکے بعد دیگرے سب نکل آئے۔ پہلے ان کا پیر نکلتا، پھر دھڑ اور آخر میں ان کا بیگ۔
کافی ہنگامے کے بعد حکومت نے ان مزدوروں کے لیے اسپیشل ٹرینیں چلانے کا انتظام کیا ہے۔ لیکن کروڑوں مزدوروں کو ان کے گھروں تک لے جانا آسان نہیں ہے۔
ٹرین چلانے پر بھی تنازع ہو گیا ہے۔ کرناٹک کی حکومت نے یہ کہہ کر اپنی ریاست سے چلنے والی ٹرینیں منسوخ کر دی ہیں کہ تعمیرات کا کام شروع ہونے والا ہے۔ مزدور چلے جائیں گے تو کام کون کرے گا؟
لاک ڈاؤن کی سب سے زیادہ مار ان غریب لوگوں پر پڑی ہے جو روز کماتے اور کھاتے ہیں۔ ہم نے اپنے پڑوس میں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ درجنوں خاندان ایسے ہیں جن کے یہاں چولہا جلانے کا انتظام نہیں ہے۔
ہمارے ایک دوست نے فون پر بتایا کہ ان کے رابطے میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو روزہ نہیں رکھ پا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سحری کرنے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔ بغیر سحری کے کب تک روزہ رکھا جا سکتا ہے؟