"نگراں وزیرِ داخلہ سندھ کہتے ہیں کہ ہم یہاں کھاتے اور کماتے ہیں لیکن جھنڈا افغانستان کا لہراتے ہیں۔ انہیں یہ نہیں پتا کہ جب افغان پاکستان کرکٹ میچ ہو تو ہمارے بچے شاہین آفریدی، شاداب، بابر اعظم اور نسیم شاہ کو دیکھنے کے لیے کتنے پُر جوش ہوتے ہیں۔ پاکستانی ٹیم کوئی چوکا، چھکا لگائے یا وکٹ لے تو یہ بچے ناچنا شروع کردیتے ہیں۔"
یہ کہنا ہے 50 سالہ رستم خان کا، جو کراچی کی افغان بستی میں 1986 سے آباد ہیں ۔
سہراب گوٹھ سے لگ بھگ20 کلو میٹر کی مسافت طے کر کے جب ناردن بائی پاس کی جانب مڑیں تو یہ افغان بستی آتی ہے۔ رستم خان اس وقت سے یہاں آباد ہیں جب 1979 میں سابق سوویت یونین (روس) نے افغانستان میں در اندازی کی تھی۔
دس برس تک جاری رہنے والی اس جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل نے افغان شہریوں کو انخلا پر مجبور کیا تھا۔ اس دوران وہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں منتقل ہونا شروع ہوئے۔
بلوچستان سے کراچی آکربسنے والوں کو اسی مقام پر قائم کردہ عارضی کیمپوں میں رکھا گیا جو اب پکے گھروں پر مشتمل ایک بستی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
اس بستی کے بہت سے گھروں پر پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں جو یہاں بسنے والوں نے 14 اگست پر لگائے تھے۔
یہاں کے مقامی جرگے کی نمائندگی کرنے والے گل الدین بیگ کا بتانا ہے کہ اس وقت اس بستی میں 45 ہزار پی او آر (پروف آف رجسٹریشن) اور 25 ہزار افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر رہائش پذیر ہیں، جو ان دنوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے بعد سے غیر قانونی افغان مہاجرین کی گرفتاریوں پر پریشان ہیں۔
اسی بستی کے رہائشی دوست محمد کے گھر سے متصل حجرے میں ہماری ملاقات یہاں کے کچھ بزرگوں سے ہوئی۔
رستم خان نے ہمیں موبائل پر گزشتہ برس کی ایک ویڈیو دکھائی جس میں اس گھر کو سبز ہلالی جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا اور بہت سے بچے سبز کپڑے پہنے ملی نغمے گا رہے تھے۔
وہ کافی جذباتی ہوگئے اور پھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی پرانی تصاویر دکھاتے رہے۔
ان کے بقول "انسان جہاں پیدا ہوتا ہے وہی اس کا وطن ہوجاتا ہے ہمارے بچے یہاں پیدا ہوئےاور ان کا رشتہ پاکستان سے ہے۔ ہم انہیں افغانستان کے بارے میں کیا بتائیں ہمیں بھی وہ یاد نہیں ۔"
اسی گھر کے صحن میں ایک موٹر سائیکل ریڑھی کھڑی تھی جس پر پڑی دھول مٹی بتا رہی تھی کہ وہ کئی روز سے باہر نہیں نکلی۔ 15 سالہ راز محمد نے مسکراتے چہرے سے ہمیں بتایا کہ یہ ریڑھی وہ اپنے والد کے ساتھ سبزی منڈی لے کر جاتے ہیں پھر سبزیاں اس پر لاد کر موسمیات کے علاقے میں فروخت کرتے ہیں۔وہ دو ہفتوں سے باہر نہیں گئے۔
راز کے بقول "مجھے پولیس نے روکا اور چھ ہزار روپے لیے اور کہا کہ جس دن پیسے نہیں ملے اس دن تمہارا ٹھکانہ جیل ہوگا۔ میں نے گھر آکر بتایا تو امی رونے لگیں اور پھر ابو نے مجھے جانے سے منع کردیا، اب کوئی مزدوری نہیں ہے۔"
امان اللہ مغل بھی اس بستی میں 1986 سے آباد ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کر کے یہاں پہنچے تھے اور اب ان کی اولادیں اور پوتے پوتیاں بھی یہیں رہتے ہیں ۔ وہ بھی سبزی منڈی میں پھل اور سبزی کا کاروبار کرتے ہیں ۔
ان کے بقول "ہم ایک ہفتے سے سبزی منڈی نہیں گئے کیوں کہ جیسے ہی ناردن بائی پاس پر نکلو وہاں کھڑے پولیس والے ہماری جامہ تلاشی لیتے ہیں اور جو کچھ جیب میں ہوتا ہے نکال لیتے ہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے وہ ہم پر ہنستے بھی ہیں، گالیاں دیتے ہیں۔ انہیں نہ تو ہماری عمر کا لحاظ ہے اور نہ ہی اس بات کا کہ وہ ہمیں بے عزت کر رہے ہیں۔ جب ہمارے ساتھ ایسا ہو رہا ہے تو سوچو جوان بچوں کے ساتھ کیا کرتے ہوں گے؟"
امان اللہ مغل کا کہنا تھا کہ "وزیرِ داخلہ کہتے ہیں کہ ایسے واقعات کم ہیں۔ تو ہم انہیں کہتے ہیں کہ وہ یہاں آئیں، ہم انہیں ان چار پانچ تھانوں میں لے چلتے ہیں جہاں سب سے زیادہ بے گناہ افغان مہاجرین کو پکڑ کر لے جایا جاتا ہے۔"
افغان مہاجرین سے رشوت طلب کرنے اور کارڈ ہونے کے باوجود گرفتار کرنے پر وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں نگراں وزیرِ داخلہ بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) حارث نواز کا کہنا تھا کہ ایسا ہونا ممکن ہے لیکن یہ پرانی شکایتیں ہوسکتی ہیں۔ اب تو تھانوں میں اچھے افسرتعینات ہیں لیکن حکومتِ سندھ جلد ہی ایسی شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے ایک نمبر جاری کرے گی جہاں ایسے واقعات کی شکایت کی جاسکے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کہہ دیا ہے کہ قانونی طور پر رہنے والے افغان مہاجرین کو ہراساں نہ کیا جائے۔ گرفتاریاں صرف غیر قانونی اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کی جائے۔
نگراں وزیرِ داخلہ کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن 35 سالہ پائندہ نبی تین بار گرفتار ہو کر عدالت سے رہا ہوئے ہیں۔ وہ اس بے یقینی کا شکار ہیں کہ ایسا پھر ہوگا۔
ماڑی پور کے گودام میں یومیہ مزدوری کرکے کمانے والے پائندہ کے مطابق "مجھے رمضان سے دو روز قبل پولیس نے گھر سے اٹھایا تھا اور تھانے لے گئےاور پھر ایف آئی آر کاٹ کرعدالت میں پیش کیا۔ میں 28 روز جیل میں رہا۔ جب رہا ہوا تو چاند رات کو دوبارہ مجھے گرفتار کیا گیا۔"
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول "میں نے عید کے لیے اپنے بیوی بچوں کے لیے جو خریداری کی تھی وہ سب اس گودام میں رہ گئی جہاں میں کام کرتا تھا۔ عید کی چھٹیوں کی وجہ سے مجھےرہائی نہ ملی اور عید جیل میں گزری۔ میں عید کے آٹھ روزبعد باہر آیا۔ میرے بچوں نے عید کے کپڑے عید کے بعد پہنے تھے۔"
پائندہ نبی کا مزید کہنا ہے کہ "ابھی 14 ستمبر کو مجھے ایک بار پھر پولیس نے حراست میں لیا تھا اور جب مجھے عدالت میں پیش کیا گیا تو جج بھی مجھے پہچان گیا اس نے کہا کہ یہ تمہیں پھر سے کیوں لے آئے ہیں؟ انہوں نے اسی وقت میری ہتھکڑی کھلوائی اور رہائی دی۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "پولیس مجھے بار بار گرفتار کرتی ہے کہ تمہارا کارڈ ایکسپائر ہوگیا ہے تم واپس جاؤ۔ میں کیسے جاؤں۔ نہ مجھے افغانستان کا پتا ہے نہ اپنے باپ دادا کے گاؤں کا ۔ میں یہاں پیدا ہوا یہیں بڑا ہوا ہوں۔ میری اولاد یہاں پیدا ہوئی ہے۔ ہمارے خاندان کے کارڈ بنے ہوئے ہیں۔ ہم راتوں رات کیسے چلے جائیں؟"
پائندہ نبی نے ان گرفتاریوں کے سبب اپنے بیوی بچوں کو بلوچستان بھیج دیا ہے۔
انہیں لگتا ہے کہ پولیس ان کے ساتھ ساتھ ان کی بیوی بچوں کو بھی نہ لے جائے۔ وہ روز 800 سے ہزار روپے کی مزدوری کرتے ہیں اور اپنے اہلِ خانہ کو پیسے بھیج دیتے ہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن اور متاثرہ افغان مہاجرین کے بلا معاوضہ کیسز کی پیروی کرنے والی وکیل منیزہ کاکڑ سے ہماری ملاقات اسی بستی کے ایک چائے کے ہوٹل پر ہوئی۔
سیاہ چادر میں لپٹی ایک خاتون کے گرد 100سے زائد مردوں کا ہجوم لگا دیکھ کر جب ہم وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ منیزہ کاکڑ ان مہاجرین کو اپنے کارڈز کو محفوظ رکھنے کے طریقوں سے آگاہ کر رہی ہیں ۔
یہ ہجوم وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ ہر شخص اپنے کارڈ کے ساتھ ساتھ 1986 کے وقت کے دستاویزات بھی لے کر آرہا تھا اور نہ ختم ہونے والے سوالات کا منیزہ فرداً فرداً جواب دے رہی تھی۔
منیزہ کے مطابق پہلے جب 20،15 لوگوں کو پولیس گرفتار کر کے لاتی تھی تو ان میں سے پانچ افراد ایسے ہوتے تھے جن کے پاس کارڈ ہوتے تھے۔ لیکن ستمبر کے ماہ میں ایسا دیکھنے کو ملا کہ جتنے بھی لوگ عدالت لائے گئے سب کے پاس کارڈ موجود تھے۔
ان کے بقول کئی افراد نے بتایا کہ جب انہیں حراست میں لیا گیا تو ان کے پاس کارڈ کی کاپی تھی۔ انہیں تھانے میں بٹھا کر اصل کارڈ منگوایا گیا، جو کارڈ لے کر گیا اسے بھی حراست میں لیا اور کارڈ کو ضائع کردیا گیا تاکہ عدالت میں یہ کہا جاسکے کہ اس کے پاس کارڈ نہیں ہے۔ لیکن ہم نے کارڈ کی کاپی یا تصویر دکھا کر انہیں چھڑوایا۔
منیزہ کاکڑ کہتی ہیں کہ اگر یہ افراد جرائم میں ملوث ہیں تو ایف آئی آر جرم کی کاٹیں اور عدالت میں لائیں۔ یہاں تو سب کو فارن ایکٹ میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔پاکستان میں 14 لاکھ افغان مہاجرین کے پاس پی او آر کارڈ ہیں جن کی میعاد ختم ہوچکی ہے۔ اس پر حکومت کا نوٹی فکیشن ہے کہ انہیں تب تک تنگ نہ کیا جائے جب تک حکومت کوئی فیصلہ نہ کرلے۔ لیکن اس نوٹی فکیشن کو پولیس اور عدالت بھی تسلیم نہیں کر رہی ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومتِ پاکستان ان 14 لاکھ مہاجرین کو ملک بدر کرنا چاہتی ہے تو اپنی پالیسی واضح کرے۔ لیکن یہاں جرائم میں ملوث افراد کے بجائے ان کو گرفتار کیا جارہا ہے جو بے گناہ ہیں ۔
یہ بھی جانیے
پاکستان سے غیر قانونی افغان تارکینِ وطن کو نکالنے کا فیصلہ، اقوامِ متحدہ کا اظہارِ تشویش'پاکستان میں جو بھی غیر قانونی طور پر رہ رہا ہے اسے اپنے ملک واپس جانا ہوگا' 'بیٹے کی رہائی کے لیے آدھی رات تک پولیس اسٹیشن کے باہر بیٹھی رہی'افغان مہاجرین کھاتے پیتے یہاں ہیں اور جھنڈے افغانستان کے لگاتے ہیں: نگراں وزیرِ داخلہ سندھاتنے سال ہمیں پاکستان میں رکھا اب بے عزت نہ کریں؛ افغان مہاجرین کا شکوہاسی ہوٹل پر ہماری ملاقات ایک نوجوان منیر اللہ سے ہوئی جو منیزہ کاکڑ کے پاس اپنی فریاد لے کر آئے تھے۔
منیر اللہ کا کہنا تھا کہ ان کا کارڈ 2009 میں جاری ہوا تھا جس کی میعاد اب ختم ہوگئی ہے۔ وہ اسے بنوانے کے لیے متعدد بار اپنے والدین کے دستاویزات کے ہمراہ نادرا کے چکر لگا چکے ہیں لیکن ناکام رہے۔ انہیں یہ جواب ملتا ہے کہ جب حکومتِ پاکستان اعلان کرے گی تو ہی کارڈ کو رینیو کردیا جائے گا۔ انہیں حال ہی میں پولیس نے پکڑا اور بر آمد ہونے والے کارڈ کو قینچی سے کتر ڈالا۔ وہ اس کارڈ کے ٹکڑے لے کر منیزہ کے سامنے بیٹھے تھے کہ کوئی راہ نکل آئے۔
منیر کے بقول "ہم عجیب مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ کمانے کے لیے باہر نکلو تو پولیس تنگ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اپنے وطن جاؤ۔ وہاں کیسے جائیں وہ جو وہاں (طالبان) بیٹھے ہیں وہ ظالم ہیں۔ ہم وہاں ان کی موجودگی میں نہیں جی سکتے اس سے اچھا ہے کہ یہی مرجائیں۔"
منیر کے گھر سے نکل کر ہم اس بستی کی گلیوں سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے اور ہمارے آگے پیچھے بچوں اور بڑوں کا ہجوم ایسے تھا جیسے کوئی بارات گزر رہی ہو۔ دکانوں پر کام کرتے ذمے داریوں کا بوجھ لیے کم عمر بچے اپنی عمر سے بہت بڑے نظر آ رہے تھے۔
وہیں گلی میں کھلے نالوں کے گرد کھیلتے ننگے پاؤں اور میلے کپڑوں میں ملبوس بچے اس غم سے آزاد تھے کہ ان کے بڑے اس وقت کس ذہنی ازیت سے دوچار ہیں۔
اسی گلی میں قائم اسکول کی عمارت کو لگے زنگ شدہ تالے نے اس سوال کو بھی جنم دیا کہ اگر یہاں اتنا بڑا اسکول ہے تو یہ بند کیوں ہے؟
معلوم کرنے پر پتا چلا کہ 2006 میں قائم ہونے والاغازی امان اللہ ہائی اسکول جرمن فنڈنگ سے چل رہا تھا لیکن اگست 2021 میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد سے اس کی فنڈنگ روک دی گئی ہے۔
اب اس اسکول میں پڑھنے والے تمام بچے گلیوں کی خاک چھان رہے ہیں یا مدارس میں داخل ہیں۔
مجھ سے بہت پہلے سہراب گوٹھ میں اسٹیشنری کا کام کرنے والے ایک افغان مہاجر نے کہا تھا کہ میں بھی دوسرے نوجوانوں کی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے کا خواب دیکھتا تھا۔ لیکن مجھے اپنے بے وطن ہونے کا احساس تب ہوا جب مجھے گریجویشن کے بعد کسی ادارے میں نوکری نہ ملی کیوں کہ میرے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ نہیں تھا۔ ہم سب جب بھی آگے بڑھنے کا سوچیں تو ہمارے افغان کارڈ اور شناخت ہمیں ان علاقوں تک محدود کردیتے ہیں جہاں ہم پیدا ہوئے، ہماری دنیا بس یہی بستیاں ہیں۔
اس بستی میں گھومتے پھرتے بچوں کو دیکھ کر یہ محسوس ہوا کہ بنیادی حقوق ان سے کوسوں دور ہیں۔ یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کی شناخت دو ممالک کے درمیان بٹ چکی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان سے غیر قانونی افغان تارکینِ وطن کو نکالنے کا فیصلہ، اقوامِ متحدہ کا اظہارِ تشویشپائندہ نبی کے بقول یہ غلطی ہمارے بڑوں سے ہوئی۔ وہاں جنگ لگی تھی یہ کیمپوں میں آ بیٹھے، کیوں کہ یہ اپنے بچوں کو وہاں نہ پیٹ بھر کر کھانے کو دے سکتے تھے نہ ہی تعلیم۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کے اس فیصلے کا اثر بچوں پر کیا پڑے گا۔ آپ ان بچوں کو دیکھیں کیا انہیں معلوم ہے کہ سرحد پر ہونے والی لڑائی سے ان کا مستقبل جڑا ہے؟ ہمارے بڑے کچھ واپس لوٹ گئے کچھ مر گئے لیکن اب ہم یہ سب بھگت رہے ہیں۔
شام ڈھلنے کو تھی اور ہم اس بستی سے نکل رہے تھے۔ ناردن بائی پاس پر کھڑے پولیس اہلکار کچھ موٹر سائیکل سواروں کو روکے پوچھ گچھ کر رہے تھے لیکن ان میں کوئی بھی افغان مہاجر نہیں تھا۔
میں سوچ رہی تھی کہ کب تک وہ خوف کے مارے گھروں میں چھپ کر بیٹھے رہیں گے؟ جب گھر کے چولہے ٹھنڈے ہوں گے تو انہیں یہاں سے گزر کر شہر کی جانب تو جانا پڑے گا۔
لیکن 15 سالہ راز محمد کی ماں کو کون سمجھائے گا کہ اگر اس کا بیٹا سبزی بیچنے نہ گیا تو گھر میں فاقے آجائیں گے اور اگر اس نے پولیس کو پیسے نہ دیے تو اسے افغان بستی کے بجائے جیل جانا پڑ جائے گا۔