'ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے میں سیاسی اثر و رسوخ استعمال ہوا'

F/A-18E and 18F Super Hornets are seen on the flight deck of the Nimitz-class aircraft carrier <em>USS Harry S. Truman</em> (CVN 75) in the Adriatic Sea, off Split, Croatia.

رپورٹ کے مطابق ڈی پی او کو سبق سکھانے کے لیے آئی جی پنجاب پر دباؤ تھا جب کہ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر میں ہونے والی ملاقات میں پولیس افسران کے ساتھ احسن جمیل گجر کا رویہ بھی تضحیک آمیز تھا۔

پنجاب کے ضلعے پاک پتن کے پولیس سربراہ کے تبادلے سے متعلق کیس کی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئی ہے جس پر عدالت نے تمام فریقین کو تین دن میں اپنا مؤقف پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

'نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی' (نیکٹا) کے سربراہ مہر خالق داد لک کی تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے میں سیاسی اثر و رسوخ استعمال کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ڈی پی او کو سبق سکھانے کے لیے آئی جی پنجاب پر دباؤ تھا جب کہ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر میں ہونے والی ملاقات میں پولیس افسران کے ساتھ احسن جمیل گجر کا رویہ بھی تضحیک آمیز تھا۔

پنجاب پولیس کے سینئر افسر مہر خالق داد لک نے اپنی یہ رپورٹ بدھ کو ڈی پی او پاک پتن کی تبدیلی سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم بینچ کے سامنے پیش کی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی پی او پاک پتن رضوان گوندل کا تبادلہ سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر کیا گیا تھا اور اس پورے معاملے میں آئی جی پنجاب کلیم امام کا کردار ربر اسٹیمپ کا تھا۔

رپورٹ کے مطابق احسن جمیل گجر نے پولیس افسران سے کہا کہ آئندہ ایسا ہوا تو سب کو بھگتنا پڑے گا۔ یہ کہنا بھی دھمکی ہے کہ سب بھگتیں گے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کے عملے نے ڈی پی او کو ٹرانسفر کے متعلق بتایا۔ تبادلے کے بعد چارج چھوڑنے سے متعلق بھی وزیرِ اعلیٰ ہاوٴس سے فون آیا۔ شواہد سابق ڈی پی او رضوان گوندل کے مؤقف کو درست قرار دے رہے ہیں۔

سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ کے مطابق ڈی پی او کا تبادلہ غیر معمولی وقت پر ہوا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ فریقین ایک ہفتے میں رپورٹ پر مؤقف پیش کریں۔ اس معاملے میں آرٹیکل 62 ون ایف کا تناظر بھی دیکھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب، آرٹیکل 62 ون ایف کو تعویذ بنا کر بازو سے باندھ لیں۔ آج احسن جمیل معافی مانگ رہا ہے۔ پہلے اس کی ٹون ہی اور تھی۔ کیوں نہ احسن جمیل گجر پر انسدادِ دہشت گردی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے؟

دورانِ سماعت خاور مانیکا سپریم کورٹ میں آب دیدہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ کیا میں سابق بیوی یا عمران خان سے بات کرتا؟ میرے بچوں کے ساتھ بدسلوکی ہوئی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے خاور مانیکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ یہ کیس خاندانی معاملات سے متعلق ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ اجنبی شخص کو ساتھ بٹھا کر کہتے ہیں کہ ڈی پی او سے بات کریں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے تسلیم کیا کہ اس چیز کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ احسن جمیل آج جھک کر کھڑے ہیں۔ پہلے دن اکڑ کر کھڑے تھے۔

سپریم کورٹ نے وزیرِ اعلی پنجاب عثمان بزدار اور سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کو مہر خالق داد لک کی رپورٹ پر تین دن میں جواب داخل کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ خاتونِ اول بشریٰ بی بی اور ان کے سابق شوہر خاور مانیکا کے بچوں کے ساتھ مبینہ بد سلوکی پر پنجاب حکومت نے ضلع پاک پتن کے اس وقت کے پولیس سربراہ رضوان گوندل کا تبادلہ کیا تھا۔

تبادلے کے لیے سیاسی دباؤ ڈالے جانے کی اطلاعات کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے تحقیقاتی رپورٹ طلب کی تھی۔

لیکن اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اس وقت کے آئی جی پولیس پنجاب کلیم امام نے معاملے کے تمام کرداروں کو کلین چٹ دیتے ہوئے کسی پر بھی ذمہ داری عائد نہیں کی تھی۔

سپریم کورٹ نے رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا اور پنجاب پولیس کے ایک اور افسر مہر خالق داد لک کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ اس معاملے میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی طلب کیا تھا جنہوں نے عدالت میں پیش ہو کر غیر مشروط معافی مانگی تھی۔