اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال "یونیسف" کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کے خلاف تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2012ء میں 95 ہزار کم سن بچوں کو قتل کیا گیا جب کہ 12 کروڑ لڑکیوں کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
یونیسف کی ایک تازہ رپورٹ میں 190 ممالک میں بچوں پر ہونے والے تشدد کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا کہ "صرف اس وجہ سے کہ ہم بچوں پر ہونے والے تشدد کو نہیں دیکھتے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ایسا (تشدد) نہیں ہو رہا۔"
یونیسف کی ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر گپتا راؤ گیتا کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں مذہب، ثقافت، نسل، سماجی و اقتصادی حالات سے قطع نظر بچے تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔
’’اس میں جسمانی، جنسی، جذباتی سب ہی طرح کا تشدد شامل ہے۔ یہ وہاں ہوتا ہے جہاں بچوں کو محفوظ ہونا چاہیئے یعنی کہ ان کے گھر، اسکول اور برادریوں میں۔ انٹرنیٹ پر بھی اس میں اضافہ دیکھا گیا۔‘‘
محققین کے مطابق تشدد کا آغاز عموماً گھر سے ہوتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب کے لگ بھگ بچے اپنے والدین یا پھر ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کے ہاتھوں روزانہ تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ بچوں کو اسکول میں بھی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اقوام متحدہ کے محققین کے مطابق 20 سال سے کم عمر کی تقریباً 12 کروڑ لڑکیوں کو زبردستی جنسی تعلق یا ایسی ہی کسی طرح کی بدفعلی پر مجبور کیا گیا۔
رپورٹ کی مصنفہ کلاڈیا کاپا کہتی ہیں کہ تشدد کے خاتمے کے لیے سماجی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے یہ بھی تجویز کیا گیا کہ تشدد کا شکار ہونے والے بچوں کے لیے بحالی مراکز ہونے چاہیئں اور بچوں کو تشدد سے بچانے کے لیے قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس پر موثر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے۔