برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے بعض امریکی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت پاکستان سے متعلق امریکی پالیسی پر نظرِ ثانی کرنے اور مزید سخت رویہ اختیار کرنے پر غور کر رہی ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق امریکی پالیسی میں تبدیلی کا مقصد پاکستان کو ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی پر مجبور کرنا ہے جن کےٹھکانے امریکی اور افغان حکام کے بقول پاکستان میں ہیں اور وہ وہاں سے پڑوسی ملک افغانستان میں حملے کرتے ہیں۔
پاکستان افغان اور امریکی حکام کے اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے اور اس کا موقف ہے کہ افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقوں سے شدت پسندوں کا صفایا کردیا گیا ہے۔
'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے خلاف جن اقدامات پر غور کر رہی ہے ان میں ڈرون حملوں میں اضافہ، پاکستان کو دی جانے والی امداد میں کٹوتی اور پاکستان سے امریکہ کے غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت واپس لینا شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ حکومت افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ میں امریکی حکمتِ عملی اور خطے سے متعلق امریکی پالیسی کا جائزہ لے رہی ہے جو جولائی کے وسط تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔
اس جائزے میں وہائٹ ہاؤس اور محکمۂ دفاع سمیت امریکی حکومت کے مختلف محکموں کے اعلیٰ حکام شامل ہیں تاہم کسی نے بھی اس جائزے سے متعلق کچھ بتانے سے معذرت کی ہے۔
امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار نے 'رائٹرز' کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پاکستان سے متعلق امریکہ کی حکمتِ عملی کبھی مکمل طور پر واضح نہیں رہی۔ لیکن ان کے بقول نئی حکمتِ عملی میں پاکستان پر کھل کر واضح کردیا جائے گا کہ امریکہ اس سے کیا چاہتا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق امریکی حکام نے اسے بتایا ہے کہ امریکی حکومت کے بیشتر اعلیٰ اہلکار پاکستان کے ساتھ قریبی تعاون کے خواہاں ہیں لیکن اس کے باوجود نئی حکمتِ عملی میں پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے بعض اقدامات بھی زیرِ غور ہیں۔
تاہم امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں ہونے والی ناکامیوں پر پاکستان کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے۔
سفارت خانے کے ترجمان عابد سعید نے 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورتِ حال پر صرف پاکستان کو موردِ الزام ٹہرانا درست ہے اور نہ ہی حقیقت سے اس کا کوئی تعلق ہے۔
ترجمان نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کےلیے امریکہ اور افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔